اُردو ادباُردو شاعریغزل
غزل / سمیٹ لی ترے صحرا کی ریت دامن میں / کرن منتہیٰ
غزل
سمیٹ لی ترے صحرا کی ریت دامن میں
پھروں میں لیلیٰ بنی جھوم جھوم کر بن میں
نصیب ہوگا مجھے زندگی میں وہ لمحہ
میں دیکھ دیکھ نہاروں گی تجھ کو درپن میں
جوان ہوتے ہی مٹی کے گھر بنائیں گے
یہ خواب پورا نہیں کر سکے تھے بچپن میں
پروں کو باندھے ہوئے تتلیاں روانہ ہوئیں
اتھل رہی تھی اداسی کی لہر گلشن میں
بنامِ دل مجھے قدرت نے بخشا صرف خلا
عجیب کرب میں ہوں میں ، عجیب الجھن میں
یہ حبس بانٹتے ہیں بارشوں سے روٹھے ہوئے
کٹے پھٹے ہوئے پیڑوں کے جسم ساون میں
کسی چراغ سے روشن ہوا نہ دل کا جہاں
نہ کوئی چشم کی خوبی ہے دل کے روزن میں




