غزل
غزل / شکل مہمان ہوئی جاتی ہے / خبیب ناسف
غزل
شکل مہمان ہوئی جاتی ہے
آنکھ زندان ہوئی جاتی ہے
خامشی پھول کے لہجے میں ڈھلی
بات گُلدان ہوئی جاتی ہے
میں ترے ساتھ ہوں سو حوصلہ رکھ
کیوں پریشان ہوئی جاتی ہے
رنج پہنے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
شمع حیران ہوئی جاتی ہے
چاند آنگن میں اتر آیا مرے
رات قربان ہوئی جاتی ہے
خوف کی لوح پہ کندہ ہے بدن
روح ویران ہوئی جاتی ہے
آگ کو آگ لگا دی اس نے
خلق حیران ہوئی جاتی ہے
آج اک ہوک اٹھی اندر سے
اور طوفان ہوئی جاتی ہے




