اُردو ادبانٹرویوخبریںشخصیت و فن

فاطمہ خان شیروانی سے اردو ورثہ کا خصوصی انٹرویو/ انٹرویور: عطرت بتول نقوی

     تعارف

فاطمہ شیروانی پاکستان کی ممتاز اور فعال خاتون پبلشر ہیں، جو یاسر پبلیکیشنز کی سربراہ کے طور پر کتابوں کی اشاعت اور ادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کی قیادت میں یاسر پبلیکیشنز نے تخلیقی، علمی اور تحقیقی کتابوں کی اشاعت میں ایک معتبر مقام حاصل کیا ہے۔

فاطمہ شیروانی نے نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی مؤثر نمائندگی کی ہے۔ وہ شارجہ اور ایران میں سرکاری دعوت پر منعقدہ پبلشرز کانفرنسز میں شرکت کر چکی ہیں، جہاں انہوں نے پاکستان کے ادبی منظرنامے اور پبلشنگ انڈسٹری کو وقار اور بصیرت کے ساتھ پیش کیا۔

ادب اور علم کے فروغ میں ان کی ایک اور نمایاں خدمت غیرملکی زبانوں کے معیاری تراجم ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ ادبی و تحقیقی متون کو مختلف زبانوں میں منتقل کر کے علم و ادب کی رسائی کو وسیع تر کیا ہے۔

بطور خاتون پبلشر، فاطمہ شیروانی ایک قابلِ تقلید مثال ہیں، جنہوں نے مسلسل محنت، وژن اور لگن کے ذریعے اشاعتی دنیا میں اپنی الگ پہچان قائم کی۔ ان کا ادارہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی، معیاری کتب کی اشاعت اور علمی و ادبی ماحول کی ترویج کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ فاطمہ شیروانی کا کام صرف اشاعت تک محدود نہیں، بلکہ وہ ادب و ثقافت کی نمائندہ شخصیت کے طور پر بھی جانی جاتی ہیں۔

انٹرویو

السلام علیکم فاطمہ کیسی ہیں؟
جی الحمداللہ۔۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں اور آپ کا بہت شکریہ جو مجھے آپ نے اس بزم میں مدعو کیا۔دوشیزہ ڈائجسٹ سے بہت محبت بھرا رشتہ ہے اور منزہ سہام جس طرح عام روش سے ہٹ کر عمدہ اور معیاری تحریروں کو اپنے پرچے کی زینت بناتی ہیں وہ بلاشبہ قابل ستائش ہے۔
اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیے، بچپن کیسا گزرا، کن اداروں سے تعلیم حاصل کی؟
میری پیدائش لاہور کی ہے۔بچپن کا کچھ حصہ کوئٹہ اور کچھ جنوبی پنجاب کے شہر میلسی میں گزرا۔والد صاحب سرکاری ملازم تھے،والدہ ہاؤس وائف ہیں،ہم لوگ پٹھان ہیں۔میرے نانا جان 1947 کے فسادات میں شہید ہو گئے تھے۔والدین بھارتی پنجاب سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔اب بھی بھارتی پنجاب میں ہمارے بہت سے رشتہ دار رہتے ہیں۔مڈل کلاس فیملی سے تعلق ہے اور زندگی میں کم وبیش انہی مسائل کا سامنا کیا جن کا سامنا وطن عزیز میں ایک مڈل کلاس فیملی کو کرنا پڑتا ہے۔تعلیم کا سفر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے مکمل کیا۔عملی زندگی کا آغاز ایک سکول میں پڑھانے سے کیا اور پھر بہت سال استاد بننے کی مشق میں گزرئے۔ابھی بھی ایک کالج میں پڑھا رہی ہوں۔پڑھانے کے ساتھ ساتھ باقی کام بھی چل رہے ہیں۔
عملی زندگی کی طرف کیسے آ ئیں؟پبلشنگ کا خیال کیسے آ یا؟
میری عملی زندگی کا آغاز گریجویشن کرتے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔پڑھائی اور کام ساتھ ساتھ ہی چلتے رہے۔ہمارے ہاں سب سے آسان کام ٹیچرکا سمجھا جاتا ہے اس لئے ایک سکول میں چھوٹے بچوں کو پڑھانا شروع کیا تو احساس ہوا کہ یہ تو سب سے مشکل کام ہے خیر بہت سال جاب میں گزرے۔گھر کا ماحول ایسا تھا کہ گھر میں کتابوں کی کثرت تھی،سو بچپن سے ہی کتاب اور کاغذ کی مہک سے آشنا تھی۔سکول کے زمانے میں قلم پکڑنے کا ہنر بھی سیکھ لیا اور کاغذ قلم سے ایسا رشتہ بنا کہ پھر وہ زندگی کا حصہ بن گیا،ڈائری لکھتے لکھتے کہانیاں لکھنی شروع کیں اور تقریباً تمام اخبارات اور رسائل میں تحریریں شائع ہوئیں۔اسی دوران چند ادبی تنظیموں سے بھی وابستگی رہی۔پہلی کتاب”تیرے قرب کی خوشبو“افسانوں کا مجموعہ تھا جو 2017 میں شائع ہوئی،اب تک چار کتابیں آ چکی ہیں اور ایک سفرنامے”ایک وادی کمراٹ“ پر پشاور یونیورسٹی کی ایک طالبہ اپنا ماسٹرز کا تھیسس بھی کر چکی ہے۔پبلشنگ کی طرف آنے کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔تین سال پہلے جب کرونا آیا تو جہاں میں جاب کرتی تھی وہاں میرے انتظامیہ کے ساتھ کچھ ایشوز ہو گئے اور میرے لئے جاب کرنا ممکن نہیں رہا تو میں نے جاب چھوڑ دی۔یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ میری سیلری اچھی تھی اور میرے ادارے کے کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ میں جاب نہ چھوڑوں۔معاملات ٹھیک ہو جائیں گے لیکن مجھے مناسب یہی لگا کہ میں اس ادارے کو چھوڑ دوں اور دوبارہ کبھی جاب کی طرف نہ آؤں۔میں نے اپنا بزنس کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے بہتر کام مجھے پبلیشنگ کا ہی لگا کیونکہ کتابوں سے جڑے تمام تر کاموں سے کسی نہ کسی حد تک آگہی تھی۔26 نومبر 2021 کو میں نے یاسر پبلیکیشنز کی بنیاد رکھی۔یاسر میرے بھائی کا نام ہے جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ان کے انتقال کو بہت سال بیت چکے ہیں لیکن میرے لئے وہ ابھی بھی زندہ ہی ہیں اور اس ادارے کے قیام کا مقصد ایک طرح سے ان کے نام کو زندہ رکھنے کی کوشش بھی ہے۔اس سال نومبر میں میرے اس ادارے کے تین سال کا سفر مکمل ہو جائے گا اور تین سال کے اس سفر میں بہت کچھ سہا،کچھ دوستوں سے ہمیشہ کے لئے تعلق ختم ہو گیا،کچھ نئے تعلق بن گئے اور احساس ہوا کہ زندگی کی تحریر کااصل متن آپ کو بزنس کر کے ہی سمجھ آتا ہے۔

کیا آ پ کو خاتون پبلشر ہونے کی وجہ سے مشکلات پیش آ ئیں،صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا؟
جی مشکلات کا سامنا تو کرنا پڑا کیونکہ پبلشنگ کو بنیادی طور پر ہمارے ہاں مردوں کے کرنے والا کام ہی سمجھا جاتا ہے اور شاید اسی لئے خواتین اس طرف کم ہی آتی ہیں جبکہ انٹرنیشنل لیول پر اس شعبے میں مرد کم اور خواتین زیادہ ہیں۔پبلشنگ کا مرکز اردو بازار ہے،مجھے یاد ہے جب پہلی بار میں اپنی دوست مریم کے ساتھ اردو بازار گئی اور اس شعبے سے وابستہ لوگوں سے ملی اور ان سے کاغذ خریدا تو وہ سب مجھے دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ ایک لڑکی اردو بازار کی تنگ گلیوں میں پاگلوں کی طرح اچھے کاغذ اور چھاپہ خانے کی تلاش میں پھر رہی ہے بہرحال جن لوگوں سے کام کروایا وہ بھروسے کے لوگ اور عزت کرنے والے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میں اب تک اس شعبے سے وابستہ ہوں۔صنفی امتیاز کا سامنا تو بحیثیت خاتون ہمیں ہر شعبے میں کرنا پڑتا ہے اور جس نے آگے بڑھنا ہو وہ ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتا سو میں بھی سب منفی باتوں کو نظر انداز کر کے آگے بڑھتی رہی۔
آ پ حال ہی میں شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر سے لوٹی ہیں پاکستان کی نمائندگی کی ہے کیسا تجربہ رہا؟
شارجہ پبلشرز کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ مجھے شارجہ کی حکومت کی طرف سے ملا اور بلا شبہ یہ میرے لئے اعزاز کی بات تھی۔اس کانفرنس میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔مجھے پتہ چلا کہ انٹرنیشنل لیول پر کیسے کام ہوتا ہے۔اس کانفرنس میں دنیا بھر کے پبلشرز شریک تھے۔میری اپنی کچھ کتابوں کے تراجم کے سلسلے میں ترک اور انڈین پبلشرز کے ساتھ ڈیلز ہوئیں۔اگلے سال میرا کچھ مزید کانفرسز میں شرکت کا ارادہ ہے۔میں چاہتی ہوں کہ اپنے لکھاریوں کی کتب کے تراجم مختلف زبانوں میں کعرواؤں تاکہ ہمارا ادب بھی دنیا بھر میں پڑھا جائے۔


اپنے پبلشنگ ادارے یاسر پبلیکشنز کے بارے میں تفصیل سے بتائیے اس کے تحت ا ب تک کتنی کتب چھاپ چکی ہیں؟
یاسر پبلیکیشنز کے زیراہتمام اب تک پچاس سے زائد کتب کی اشاعت کا سفر مکمل ہو چکا ہے اور مزید کتب زیر اشاعت ہیں۔پچھلے سال یاسر پبلیکیشنز کے زیراہتما م ایک جرمن رائٹر سرجیت سنگھ جرمنی کی کتاب ”موسے والا کون“ جو گورمکھی زبان میں لکھی گئی تھی اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا جو ہماری پہلی بین الا قوامی تصنیف تھی۔اس کے علاوہ بھی ہم اپنے لکھاریوں کی کتب کی تقریب رونمائی ”مستنصر حسین تارڑ“ کے تکیہ تارڑ پر بھی کروا چکے ہیں۔ملکی اور بین الاقوامی کتب میلوں میں بھی یاسر پبلیکیشنز کی کتب آپ کو نمایاں نظر آئیں گی۔اس کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی لائبریریوں میں بھی ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنی زیادہ سے زیادہ کتب بھیج سکیں۔اگلے سال اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر میرا اس شعبے میں کچھ مزید نئے تجربات کرنے کا ارادہ ہے۔
آپ کے علاؤہ بھی کسی خاتون پبلشر نے بیرون ملک بک فیئر میں شرکت کی یا آ پ پہلی ہیں؟
پاکستان میں پبلشنگ کے شعبے میں اکسفورڈ کی مینجنگ ڈائریکٹر امینہ سید کا نام نمایاں ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے پہلے شاید انہوں نے انٹرنیشنل بک فیرز میں شرکت کی ہو کیونکہ انٹرنیشنل پبلشرز ایسوی اسیشن کی واحد ممبر پاکستان سے امینہ سید ہی ہیں۔

شارجہ اور جن ریاستوں میں آ پ نے پاکستان کی نمائندگی کی ہے وہاں اردو کتابوں کو کتنی پزیرائی ملی؟
میں نے متحدہ عرب امارات کی تقریباً تمام ریاستوں کی لائبریریوں کا وزٹ کیا ہے۔اردو کتابوں کی نمائندگی وہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔اس سلسلے میں میں ”سرمد علی خان“ صاحب کا نام میں ضرور لیناچاہوں گی۔یہ اردو بک ورلڈ کے نام سے ایک ادارہ چلاتے ہیں اور پاکستان بھر سے اردو کتابوں،مصنفین اور پبلشرز کو دنیا بھر میں متعارف کرواتے ہیں۔اردو کتب کے فروغ کے حوالے سے ان کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔شارجہ اور ابوظہبی میں اردو کتابوں کے خریدار اتنے زیادہ نہیں ہیں لیکن اردو کتابوں اور زبان سے محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں جو اردو کتب کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔
آپ کو خود کیسی کتابیں پڑھنا پسند ہے؟
مجھے فکشن پسند ہے۔مختصر افسانے اور طویل ناول دونوں اصناف ہی میرے دل کے قریب ہیں۔
کس شاعر یا ادیب کو بہت پسند کرتی ہیں؟
مجھے فیض احمد فیض بہت پسند ہیں۔امرتا پریتم اور گلزار صاحب کی نظمیں پسند ہیں۔ممتاز مفتی کی لبیک پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔ڈائجسٹ رائٹرز میں فرحت اشتیاق،نمرہ احمد بہت اچھا لکھ رہی ہیں عہد حاضر میں آمنہ مفتی کی تحریریں پسند ہیں۔باقی سبھی دوست بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔


پاکستانی معاشرے سے کتاب کے حوالے سے کوئی گلہ؟
ہم لوگ کتاب نہیں خریدتے بلکہ توقع کرتے ہیں کہ کتاب تحفے میں ملے۔ اگر ہم کتاب خریدکر دوسروں کو تحفے میں دیں تو اس سے معاشرے میں ایک مثبت سرگرمی کا آغاز ہو گا اورجب یہ روایت بن جائے گی تو آنے والی نسلوں کے ذہنوں کی آبیاری کا کام کرے گی۔
اردو ورثہ کے لیے کوئی پیغام؟
اردو ورثہ کے لئے بھی یہی پیغام ہے کہ عمدہ اور معیاری ادب کو فروغ دیتے رہے اور معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں۔

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x