غزل
غزل / تو کیا ہوا جو زمانے سے بےرُخی ہوئی ہے / صفی ربّانی
غزل
تو کیا ہوا جو زمانے سے بےرُخی ہوئی ہے
یہ رسم کونسی ایجاد ہم نے کی ہوئی ہے
زمیں پہ اگلی لڑائی ہے آکسیجن کی
درخت کٹنے لگے ہیں، ہوا رکی ہوئی ہے
ہم اگلی نوری صدی میں ظہور پائیں گے
ہماری دور خلاؤں سے دوستی ہوئی ہے
یہ کس نے کھول دیں سب کھڑکیاں سماعت کی
یہ کس کی باتوں سے کمرے میں روشنی ہوئی ہے
یہ کس عفیفہء ملکِ سبا کی آمد ہے
ہر اک کمر ہے خمیدہ نگہ جھکی ہوئی ہے
اُٹھان اُس کے بدن کی خدنگِ تازہ ہے
دلوں کی خیر مناؤ ! کماں تَنی ہوئی ہے
اکڑ کے چلنا طبیعت ہے بانجھ لوگوں کی
جو شاخِ تازہ ثمر ہے وہی جھکی ہوئی ہے
نگاہِ ناز نے پھر سے اِسے جِلا بخشی
شرارِ عشق کی لَو میں اگر کمی ہوئی ہے
نیا دریچہ غزل گھر میں کیا بَنے گا صفی
گزشتگاں نے وہ ترتیب اس کو دی ہوئی ہے




