آپ بیتیاُردو ادبکہانی

ایک خواب / شمیم عارف

وہی فیروزی کرتا،
وہی چھوٹی سی ناک جس پر چشمہ اور نخرہ دونوں دھرا رہتے، آج بھی تم ویسی ہی ہو۔

"کیسی ہوں میں؟”
میں نے بڑے چاؤ سے پوچھا۔

"جیسی بیس سال پہلے تھی۔”

آج ہم بیس سال بعد ملے تھے۔ بہت بڑا سیاسی جلسہ تھا۔ میں نے بھی فوٹو اور فیچر لکھنے تھے، اس لیے جلسے میں سیاسی بندے کا انتظار کرنے لگی۔ اس دھکم پیل میں میرا پاؤں بری طرح کچل گیا۔ میں رونے ہی والی تھی کہ کسی نے مجھے ہاتھ دیا اور جلوس میں سے باہر نکالا۔ میں مشکور ہوکر اس کی جانب متوجہ ہوئی تو وہ مجھے پہلے ہی شوق اور اشتیاق بھری نظروں سے جانچ رہا تھا۔ جس نے مجھے ہاتھ پکڑ کر بھیڑ سے باہر نکالا اور اب پڑتال کرتی نظروں سے بس تکتا جا رہا تھا۔ یہ میرا کلاس فیلو اسد تھا۔

اس نے یاد دلایا کہ کالج کے دور میں بھی ہم جلسے میں ملے تھے، وہ شاید بے نظیر کا دور تھا۔
مجھے بھی سب یاد آ گیا۔ میں نے اس کی والہانہ نظروں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:
"تمہیں سب یاد ہے؟ میں تو بھول گئی تھی۔ میری شادی ہو گئی تھی میرے چچا زاد دانیال سے۔ اور بیس سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ بیس، بیس سال کے نوجوان تھے ہم سب کالج فیلو۔”

اس نے پھر کہا:
"پہلی محبت کس کو بھولتی ہے کرن۔ ہاں، سیاست میں چلا گیا تھا۔ سیاست سب بھلا دیتی ہے یا جلسوں کی دھول پڑ جاتی ہے۔”

"تمہارا سیل فون آف جا رہا ہے کرن، اسے آن کر لو۔ میں پھر ملوں گا۔”

"مگر میں نے تو تمہارا نمبر بلاک کر دیا تھا شاید، اسد۔”

"دیکھو، میرے جذبے کی طرح میرا نمبر بھی تمہاری اسکرین پہ جگمگا رہا ہے۔”

"آؤ، سیاسی شخصیت کے ساتھ تمہاری فوٹو بنا دوں کرن۔”

اس نے مجھے بھیڑ میں کور کرتے ہوئے سیاسی شخصیت کے ساتھ کھڑا کیا اور میری تصویر کھینچ لی۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، بلاول اور اس کی بہن تھے۔

میری محبت نے پیار سے ہاتھ ہلایا، بلاول کو بھیڑ سے نکالا، اس کی خوبصورت جی۔ایم۔سی گاڑی میں بٹھایا اور اس کے ساتھ ہی چلا گیا۔ یہ اس زمانے کا دوست تھا جب ہم دونوں کو نیا نیا جرنلزم کا شوق چڑھا تھا۔ ہم گروپ کے سات لڑکے لڑکیاں روز پریکٹیکل کے لیے کہیں نہ کہیں جاتے رہتے تھے۔ سیاسی شخصیت ہو یا لکھاری، شاعر یا وکیل، سب سے انٹرویو کرتے، اپنے اپنے تجربات و مشاہدات لکھتے، خوب انجوائے کرتے۔

انجوائے کرتے کرتے میری شادی بھی ہو گئی اور ختم بھی ہو گئی۔ ختم ہونے میں مسئلہ دانیال کی انا کا تھا کہ گھر پہ رہو، اماں سے کام سیکھو، مجھے نہیں چاہیے تمہاری نوکری۔

یوں میری صحافت پھر سے شروع ہو گئی۔ اماں میری شادی کروانے کے چکر میں رہتی، اسی پریشانی کو لے کر اللہ میاں کے پاس چلی گئیں۔ میں نے گھر کرائے پہ لیا اور گرلز ہاسٹل میں رہنے لگی۔ روزنامہ جنگ میں کالم نگاری عروج پہ تھی۔ جلسے جلوس، پروگرامز وغیرہ کے لیے میں خود ہی جانے لگی۔ زندگی ایک اچھی، پرسکون ڈگر پہ چل نکلی تھی کہ آج پھر سے اسد سامنے آ گیا، پھر سے ملنے کی وارننگ بھی دے گیا تھا۔

مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اب کی بار یہ اپنی محبت ضرور حاصل کرے گا۔ میں نے بھی اپنے آپ کو اس کا منتظر پایا۔

 

Author

Related Articles

Back to top button