اُردو ادبافسانہ

ماسٹر جی/ مہرالنساء مولوی

سرما کی سنہری دھوپ میں وہ چاند چہرہ گلابوں کی سی مہک لیے دکان کے دروازے پہ نمودار ہوا تو میری آنکھیں چندھیا گئیں۔
وہ اپنے سراپے میں ایسی نازک اور دل کش تھی کہ جیسے کوئی ان دیکھا خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہو۔
اس کی چال میں ایک ایسا رقص تھا جو ہوا کو بھی تھم جانے پر مجبور کر دے۔

میں سلائی کی دکان میں کاؤنٹر کے پیچھے سٹول پر بیٹھا تھا۔ جب وہ اندر آئی، میں عام سا لڑکا
اچانک خود کو راج کمار سمجھ بیٹھا۔
"ماسٹر صاحب!” اس کی رسیلی آواز نے میری سماعتوں میں جیسے رس گھول دیا۔
اس نے پہلی بار مجھے مخاطب کیا اور میں ساکت ہو گیا۔
"جی فرمائیے” میں نے اپنی آواز میں لرزش محسوس کی۔
اس نے کپڑوں کا ایک تھیلا میرے حوالے کیا اور مسکراتے ہوئے بولی”کپڑے پرسوں تک تیار ہو جائیں گے نا؟” میں تو بس اس کے حنائی ہاتھوں کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ نرم و ملائم ہاتھ کپڑوں کا تھیلا میرے ہاتھوں میں دے رہے تھے۔
وہ لمحہ ایسا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔

میں نے کپڑے کھول کر دیکھے اور کپکپاتی زبان سے پوچھا، "ناپ؟” اس نے تھیلے کی طرف اشارہ کیا۔
پھر جاتے جاتے کہہ گئی، "پرسوں اسی وقت آؤں گی۔
کپڑے تیار رکھنا۔”

وہ تو دکان سے چلی گئی مگر اپنے سراپے کا تصور اور اپنی خوشبو میرے پاس ہی چھوڑ گئی۔
میں اس کے کپڑوں کو بے خودی سے چھو رہا تھا کہ اچانک استاد عنایت صاحب دکان میں داخل ہوئے۔ مجھے خیالوں میں گم دیکھ کر ان کو شدید غصہ آیا۔
ان کی گرج دار آواز دکان میں گونجی اور میرے منھ پہ پڑا تھپڑ مجھے حقیقت کی دنیا میں کھینچ لایا۔

"یہ کیا ہو رہا ہے؟” انہوں نے دھاڑتے ہوئے پوچھا۔ میں نے گھبرا کر تمام واقعہ کہ سنایا۔ استاد عنایت کپڑے کا جائزہ لیتے ہوئے بولے "یہ تو لمبائی میں بھی کم ہے اور آستین کا بھی مسئلہ لگ رہا ہے۔ کپڑا کم ہے ۔ آستین تو مشکل ہے ۔
گاہک سے بات کیے بغیر تم نے وعدہ کر لیا۔
پیسے؟
ڈیزائن؟
کچھ بھی نہیں پوچھا؟”

میری حالت ایسی تھی جیسے کوئی مجرم اپنے جرم کا اقرار کر رہا ہو۔
"نن… نہیں ماسٹر صاحب۔”

وہ سر سے پاؤں تک مجھے دیکھتے ہوئے بولے۔ "آئندہ کوئی گاہک آئے تو تم یہی کہو گے۔ "ماسٹر جی آئیں گے ،وہ ہی آرڈر لیں گے۔
میں چھوٹا کاری گر ہوں۔”
یہ الفاظ یاد کر لو ورنہ دکان سے چھٹی سمجھو۔

میں نے جھکے سر کے ساتھ کہا "جی ماسٹر صاحب یاد رکھوں گا۔”
وہ واپس کام میں مصروف ہو گئےاور میں اپنی مشین کے سامنے بیٹھا پھر سے خیالوں میں کھو گیا۔ وہ حسین چہرہ، وہ حنائی ہاتھ، وہ رس گھولتی آواز، سب جیسے میرے دل و دماغ پر نقش ہو گئے تھے مگر حقیقت کا وزن میرے خوابوں سے کئی گنا زیادہ تھا۔

میری نظریں مشین پر تھیں مگر دل کسی اور دنیا میں بھٹک رہا تھا۔ "کیا کبھی وہ وقت آئے گا جب لوگ مجھے ‘ماسٹر جی’ کہہ کر بلائیں گے؟
جب میری محنت کا صلہ عزت اور مقام کی صورت میں ملے گا۔
کیا وہ دن آئے گا جب وہ نازک پری، جو آج صرف ایک گاہک تھی، میرے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہے گی "ماسٹر جی! آپ کے ہاتھوں میں تو جادو ہے۔
میں جانتا تھا میں وہ ہوں
جسے ابھی استاد عنایت کی سختیوں کے ساتھ ساتھ زندگی کی کڑی آزمائشوں سے گزرنا تھا۔ دل میں کہیں ایک امید سی تھی۔ ایک چنگاری کہ شاید ایک دن میرا خواب حقیقت بن جائے۔
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور دکان میں جلتے بلب کی مدھم روشنی میں میں اپنی سلائی مشین کے ساتھ جُتا ہوا تھا۔
ماں کی خواہش تھی کہ میں بہت محنت کروں ۔ اپنا مقام بناؤں ۔ ۔ وہ مجھے گھبرو شیر جوان کہتی تھی ۔ اس کی باتیں مجھے اپنی حقیقت بھلا دیتی تھیں ۔
ماں مجھے دلہا کے روپ میں دیکھنے کی شدید خواہش رکھتی تھی ۔اسی لئے اس نے مجھے کام سیکھنے کے لئے بٹھا دیا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک دن میں بھی ماسٹر بن کر ‘ماسٹر جی ‘ کہلاؤں گا ۔
پھر ماں کو لڑکیاں نہیں ڈھونڈنا پڑیں گی ۔ لڑکیاں خود مجھ سے شادی کے خواب دیکھیں گی ۔ ماں کی باتیں مجھے خوابوں کی دنیا میں پریاں دکھاتی تھیں ۔
مجھے اپنا آپ بہت خوبصورت لگتا تھا ۔ میں لڑکوں کے آوازے کسنے سے ، بس پر چڑھتے ہوئے ، کنڈکٹر کے مزاحیہ اور طنزیہ فقروں سے بھی نہیں گھبراتا تھا ۔ میں جانتا تھا ۔میرا سب سے بڑا عیب غربت ہے ۔ کل جب میں اپنی محنت کے بل پر ترقی کروں گا ۔تو میری عزت کرنے پر لوگ مجبور ہوں گے ۔

مشین کی آواز میں مجھے اپنے خوابوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی—”ماسٹر جی.. ماسٹر جی "۔
ماسٹر عنایت جو نماز کے لئے گئے تھے ۔ وہ واپس آ چکے تھے اور ان کی اجازت پا کر میں بھی مسجد چلا گیا ۔ وہاں وضو کرنے اور نماز کی ادائیگی کے بعد چائے پی کر واپس آیا تو ماسٹر عنایت نے بتایا کہ” وہ لڑکی معلوم کرنے آئی تھی ۔ میں نے بتا دیا کہ کپڑا کم ہے ۔وہ ابھی آنے کا کہہ کر شاید بازار گئی ہو گی تو جب وہ کپڑا لا کر دے تو سنبھال لینا ۔ ” وہ تو چلے گئے ۔ پر ان کے جانے کے کچھ دیر بعد ہی وہ البیلی حسینہ ایک بار پھر دکان پر آئی ۔ اس کی ایک سہیلی یا بہن بھی ساتھ آئی تھی ۔ اس نے مزید کپڑا جو ایک تھیلی میں تھا ۔ اسے آگے بڑھایا ۔ اسے دیکھ کر میں بے خودی کے عالم میں آٹھ کر اس کی جانب بڑھا ۔وہ ایک دم ہنس کر بولی ،” ارے یہ تو بوٹے سے قد والا چھوٹا کاریگر ہے ۔ پس میں خوامخواہ اسے ماسٹر جی کہنے لگی۔ "اس کے ساتھ آئی لڑکی نے ہنستے ہوئے سرگوشی کی “ماسٹر بوٹا”
اور ان دونوں کی کھلکھلاہٹ مجھ پر گھڑوں پانی وال گئی۔

مہر النساء مولوی۔
30-12-2024

Author

Related Articles

Back to top button