اُردو ادباُردو شاعرینظم
شہد کی مکھیوں کا چھتہ / قیصر اقبال
شہد کی مکھیوں کا چھتہ
وقت کے دالان میں
موسمی اثرات کے کمسن تغّیرات، اب
واضع نظر آنے لگے،
پھول اپنی رنگت کے بے اثر خاکےچمن میں خارزاروں کے حوالے کرکے،
گلستانِ مرگ سے پیدل روانہ ہوگئے
اُن کے عطریات
پھٹی پرانی گٹھریوں میں
شکستہ دلی کی طرح
خود کو سنبھال نہ سکے
بے کل ہواؤں نے اُنھیں
اپنی گرہ میں لے لیا،
اُن کے بدن کی ہر نمّو
اپنے حفظِ جاں کی ….. خاطر
دبی دبی آواز میں بین سا کرنے لگی
پرساد بھی بٹنے لگا، خیرات بھی دینے لگیں۔
بجلی سی کڑکی اچانک
جو وسطِ گلستاں میں گری
پندارِ نفس کا ہر شگوفہ زخم زخم ہوگیا
اس ثولیدہ روّی میں
شہد کی مکھیوں کے چھتّے
ٹہنیوں سے ٹوٹ کر فرشِ زمین پہ آ گرے،
مکھیاں رخصت ہوئیں ، شہد کیچڑ ہوگیا۔
اس جبروتی قہر میں
درد کے سارے عقیدے
کوئی دوا نہ پا سکے ۔۔۔!!




