
رات کے دس بج رہے تھے دونوں بچوں کو سلا کر میں بالکنی میں آ بیٹھی ۔ یہ اس دو کمروں کے چھوٹے سے فلیٹ میں میری من پسند جگہ تھی ۔ خواہ گرمی ہو یا سردی میری فراغت کے تمام لمحات یہیں گزرتے تھے اور یہ معمول پچھلے پانچ سال سے جاری تھا ۔ بالکنی سے باہر ایک پتلی سی سڑک تھی اور اس کے پار دوسری سوسائٹی کی مسجد جس کا نام مسجد حمزہ تھا ۔ میرا فلیٹ تیسری منزل پر واقع تھا اس لیے سڑک سوسائٹی اور مسجد میں ہونیوالی زیادہ تر نقل و حرکت آسانی سے دیکھی جاسکتی تھی لیکن میری دلچسپی کا اصل مرکز ہمیشہ مسجد حمزہ ہی رہی تھی ۔ ناجانے کیوں اول روز سے مجھے اس مسجد سے ایک خاص انسیت محسوس ہوتی تھی حالانکہ جب میں وسیم صاحب کی معیت میں یہاں آئی تھی تب یہ مسجد بالکل کھنڈر جیسی تھی اس میں کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا۔ اس کی ویرانی دیکھ کر مجھے اکثر یہ احساس ہوتا کہ جیسے اس میں آسیب بسیرا کیے ہوں گے ۔ سچ کہوں تو مجھے اس مسجد کا حال بھی اپنے اندر جیسا ہی لگتا تھا ۔ خالی ویران کھنڈر جیسا ۔ میں گھنٹوں بالکنی میں بیٹھی اس مسجد کی طرف دیکھتی رہتی اور سوچتی رہتی ۔
کاش مجھے سمجھا جاتا ، میری زندگی پر میرا بھی حق تسلیم کیا جاتا لیکن میرے اپنوں نے تو مجھے صرف اپنی جاگیر ہی سمجھ لیا ۔ پیدا کیا تو پرورش کا خراج طلب کر لیا ، بے انتہا محبت دے کر اس محبت کی قیمت وصول کرنی چاہی ۔ بھلا ایسا کب ہوتا ہے کہ باپ اولاد پر سرمایہ لگائے تو چاہے اس کی مرضی کا فیصلہ مانا جائے ماں دودھ پلا کر پروان چڑھائے تو اولاد اس کے حق میں اپنی مرضی بخش دے لیکن میرے ساتھ میرے ماں باپ نے ایسا ہی کیا ۔ پاپا نے چاہا پھوپو کے بیٹے کو اپنا لوں تاکہ ان کا خاندان مضبوط ہو اور ماما نے چاہا ماموں کے بیٹے کو اپنا لوں تاکہ ان کے خاندان سے پاپا دب جائیں ۔ تمام عمر میری خاطر سمجھوتا کرنے والے ماماپاپا زندگی کے اہم موڑ پر دو الگ الگ خاندانوں میں بٹ گئے ۔ کاش اس وقت میرا دل ہی کسی ایک جانب جھک جاتا مگر ایسا بھی نہ ہوا میری مرضی ان دونوں کے لیے نہیں ہوسکی ۔ قسمت نے بھی میرے لیے کچھ اور ہی سوچا تھا سو میں چپ چاپ اپنے کالج کے لیکچرار وسیم صاحب کا ہاتھ تھام کر اپنی آبائی گھر سے چلی آئی جس کے دروازے میرے نکلتے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھ پر بند کردئیے گئے ۔
مسجد کو دیکھتے میں گھنٹوں اپنے حالات کو سوچتی رہتی تھی لیکن جب بالکنی سے اٹھتی تب ایک دعا ضرور کرتی کہ یا اللہ میرے دل اور اس مسجد کی ویرانی دور کردے جلد ہی مجھے لگا میری دعا قبول ہونے لگی ہے ۔ میرے وجود میں ہلچل شروع ہوئی تو سامنے مسجد میں بھی لوگوں کی آمد ورفت شروع ہوگئی ۔ مسجد کا کھنڈر ڈھا دیا گیا چند روز بعد ملبہ ہٹا کر کھدائی شروع ہوئی لیکن ہر کام بہت سست رفتاری سے ہورہا تھا رمضان سے پہلے چبوترہ بنا سوسائٹی کے دس بیس لوگ رمضان میں اسی پر نماز پڑھنے لگے اگلے سال پلر کھڑے کر کے چھت ڈال دی گئی ۔ بنا دیواروں والی مسجد میں کچھ نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی ۔ اس سے اگلے سال دیواریں بھی کھڑی ہوئیں اور پکا فرش بھی پڑ گیا ۔ مسجد میں رونق بڑھ گئی ۔ یہ سب دیکھ کر میرا دل اندر سے ہمکنے لگتا ہر سال رمضان سے پہلے سوسائٹی والے مسجد کو کچھ نہ کچھ بہتر کیے جارہے تھے۔
مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے دو پیارے پیارے بچوں سے نواز دیا تو ان میں مصروف ہوکر کچھ عرصہ کے لیے مسجد سے غافل ہو گئی لیکن اب پھر جب سے وسیم دبئی چلے گئے تھے میں رات میں بچوں کو سلا کر بالکنی میں آ بیٹھتی تھی مگر اب کچھ ایسا تھا جو مجھے ایک عجیب احساس میں مبتلا کرتا تھا ۔ مسجد کے احاطے میں بڑی بڑی گاڑیاں آنے لگی تھیں ۔ ان سے اجنبی چہروں والے لوگ اترتے اور ہفتہ ہفتہ بھر مسجد میں ہی قیام پذیر رہتے ۔ ایک کھلی جگہ لکڑیاں جلا کر کھانا پکاتے ۔ سوسائٹی کے لوگ دور دور سے انھیں دیکھتے رہتے مگر ان کی نظروں سے بےچینی جھلکنے لگی تھی ۔ ان لوگوں کے آنے پر مسجد کی تزئین و آرائش کا کام تیز ہوجاتا تھا ۔
اکثر جمعے کی نماز کے بعد لوگ مختلف گروہوں میں بٹ کر بات کرنے لگے تھے ۔ مسالک کی تفریق ماحول میں ابھر کر آرہی تھی۔ دن بدن مجھے ایک خوف سا محسوس ہونے لگا تھا اور پھر چند دن بعد ہی وہ خوف نکل کر سامنے آگیا ۔ سوسائٹی کے کچھ لوگوں کی اور ان نوواردوں کی زبردست لڑائی ہوئی خوب ڈنڈے چلے اور اینٹیں برسائی گئیں ۔ نو وارد تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود سوسائٹی والوں پر حاوی تھے ۔
میرا دل یہ ساری صورتحال دیکھ کر نہایت غمزدہ تھا ۔ اس لڑائی کے بعد دو دن کوئی مسجد میں جھانکا بھی نہیں ۔ میرا ذہن صرف یہی سوچتا رہتا کہ اب کیا ہوگا ۔ کیا مسجد پھر سے ویران ہو جائے گی لیکن اب کی بار خدا کی رضا کچھ اور تھی ۔ رمضان کا چاند نظر آتے ہی نوواردوں کی گاڑیاں پھر سے آگئیں ۔ اس بار ان کی تعداد دگنی تھی ۔ مسجد میں انھوں نے ہی نماز پڑھی لیکن مسجد سے کچھ دور ایک پرانے مکان کی چھت پر سوسائٹی کے لوگوں نے اکٹھے ہو کر تراویح پڑھی ۔
یہ منظر دیکھ کر میں نے سوچا چند سالوں میں سوسائٹی والے اسے بھی ایک مسجد بنا ہی لیں گے ۔
از
کرن نعمان




