خبریں

طورخم بارڈر افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے آج کھول دیا گیا: ضلعی انتظامیہ/ اردو ورثہ

ضلعی انتظامیہ کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع طورخم بارڈر تین ہفتوں بعد آج صرف افغان پناہ گزینوں کی رضارانہ واپسی کے لیے کھول دیا گیا ہے، تاہم تجارتی آمدورفت بدستور ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد سے طورخم بارڈر بند ہے، جس سے نہ صرف سینکڑوں مال بردار ٹرک اور کنٹینرز بارڈر کے دونوں طرف پھنسے ہوئے ہیں اور تجارت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، وہیں وطن واپس جانے والے افغان پناہ گزین بھی مشکلات کا شکار ہیں۔

پاکستان میں افغانستان کے سفیر سردار احمد شکیب نے دو روز قبل گذشتہ کئی دن سے سرحد کی بندش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ واپس جانے والے پناہ گزینوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔

اپنی ایکس پوسٹ میں سردار شکیب نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ سرحدوں کو کھول کر پناہ گزینوں کی با عزت طریقے سے واپسی یقینی بنائے۔

جس کے بعد حکام نے پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے ہفتے کو طورخم بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا۔

ڈپٹی کمشنر خیبر کے ترجمان محمد انس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طورخم بارڈر آج واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے کھولا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’طورخم پر افغان پناہ گزین موجود ہیں اور آج کوشش ہو گی کہ تمام پناہ گزینوں کی رضاکارانہ واپسی یقینی بنائی جائے۔‘

پاکستان نے 2023 میں ضروری دستاویزات نہ رکھنے والے پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بعد ازاں افغان پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ یا افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افراد کو بھی واپس افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آر نے اکتوبر 2025 کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں مقیم 16 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین افغانستان واپس جا چکے ہیں۔

افغانستان کے طورخم سے متصل صوبہ ننگرہار کے مرکزِ اطلاعات سے جاری بیان میں بھی بتایا گیا کہ سرحد صرف آج پناہ گزینوں کے لیے کھولی گئی ہے۔

بیان کے مطابق دیگر تجارتی آمدورفت اور مسافروں کے لیے بارڈر بند ہوگا اور صرف پناہ گزینوں کو واپس افغانستان جانے کی اجازت ہوں گی۔

پاکستان افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے حکام کے مطابق طورخم اور چمن پر دونوں جانب تقریباً تین ہزار کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں، جس میں مختلف سامان موجود ہے۔

افغان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گذشتہ روز خیبر نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ افغانستان کی جانب پاکستان کے ایسے کنٹینرز بھی موجود ہیں، جو وسطی ایشیا سے لائے گئے سامان سے لدے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’سیاست اور تجارت کو الگ رکھنا چاہیے کیونکہ اس سے سرحد کے دونوں جانب تاجروں کو مالی نقصان پہنچ رہا ہے اور کنٹینرز میں سامان خراب ہورہا ہے۔‘

 پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر کے اوائل میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد کشیدگی میں کمی کے لیے قطر اور ترکی کی ثالثی میں امن مذاکرات کا انعقاد ہوا۔

بات چیت کا پہلا دور دوحہ میں منعقد ہوا اور 19 اکتوبر کو دونوں ملکوں میں جنگ بندی کا فیصلہ ہوا، جس کے بعد 25 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں چار دن تک جاری رہنے والا مذاکرات کا دوسرا دور ناکامی پر اختتام پذیر ہوا۔

پاکستان نے 29 اکتوبر کو استنبول مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری مخالف فریق پر ڈالی تھی، تاہم 30 اکتوبر کو میزبان حکومت کی درخواست پر پاکستان نے افغانستان سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا، جس کے بعد جاری کیے مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ فریقین نے سیزفائر کو برقرار رکھنے اور ایک نگرانی اور تصدیق کا نظام بنانے پر اتفاق کیا ہے، جس کا حتمی فیصلہ چھ نومبر کو استنبول میں ایک اجلاس میں کیا جائے گا۔

استنبول میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بارڈر کی صورت حال، پناہ گزینوں کی واپسی اور تجارتی امور سمیت دیگر اہم نکات پر بات چیت متوقع ہے۔


Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x