غزل
عزل / ان دنوں وقت بھی نایاب ہوا کرتا تھا / یاسمین سحر

غزل
ان دنوں وقت بھی نایاب ہوا کرتا تھا
اس کی آنکھوں میں مرا خواب ہوا کرتا تھا
میری قسمت کی لکیریں بھی بہت روشن تھیں
میری پیشانی پہ مہتاب ہوا کرتا تھا
اک چمکتا نظر آتا تھا فلک پر مجھ کو
اور اک تارہ تۂ آب ہوا کرتا تھا
مزہ دیتی مجھے تاخیر مری اس پل جب
میرے ملنے کو وہ بیتاب ہوا کرتا تھا
ان کتابوں میں مڑے ہوں گے ورق جس کے ابھی
وہ پسندیدہ مرا باب ہوا کرتا تھا
مچھلی اک آدھ کوئی کانٹے میں پھنس جاتی تھی
گھر کے پچھواڑے میں تالاب ہوا کرتا تھا




