تبصرہ کتب

”سولہویں کائنات“ تجزیہ نگار : احمد اویس

”سولہویں کائنات“ تجزیہ نگار : احمد اویس

 

اظہار روز ازل سے انسان کا مسئلہ رہا ہے اور انسان نے مختلف تخلیقی پیرایوں میں اظہار کرنے کی کوشش کی۔ مصوری، موسیقی، رقص، مجسمہ سازی، شاعری اور آرٹ کی دیگر اصناف اسی اظہاریے کی مسلسل کوششوں کے باعث وجود میں آئے۔ زبان میں انسان نے اپنے افکار، احساسات و تصورات، جمالیات اور جذبات وغیرہ کا اعلی ترین اظہار شاعری کی صورت میں کیا۔ شاعری اس لیے بھی زبان و ادب کی دیگر اصناف پر مقدم ہے کیونکہ اس میں انسان کی حسیات، اعلی جمالیاتی اقدار، جذب اور معروض، باطن اور خارج، تخیل اور تعقل، تخلیقیت اور آہنگ کا اس قدر حسین امتزاج ملتا ہے جو اور کسی ادبی صنف میں نہیں پایا جاتا۔

توحید زیب کی نظمیں اس کی فکری جمالیات اور ذہن میں جنم لینے والی فلسفیانہ موشگافیوں کا بھرپور ادبی اظہاریہ ہیں۔ توحید کی نظمیں مختلف ہیں اور مختلف زاویوں سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ توحید نے نظم کے لگے بندھے کرافٹ یا روایتی پن کو برتنے کی بجائے خود اپنی تخلیق کردہ جذبی کائنات سے چند روشن ستارے مستعار لے کر نظم کی صورت میں پیش کر دیے ہیں۔ اس کی نظم کا لہجہ جس انفراد اور اٹھان کا حامل ہے وہ اس کے ہم عمر و ہم عصر شعراء میں شاید نہ مل سکے۔ جس کی غالب وجہ یہ ہے کہ نظم کا یہ اسلوب توحید نے کسی کی روشن کی ہوئی آگ سے ادھار نہیں لیا بلکہ ایک فن کار کوزہ گر کی طرح خود سینچا ہے۔

ادھر ذرا بھی احتیاط سے پرے ہوئے
اُدھر بدن کی دیکھ بھال فلسفی نے تھام لی
جسے نہ آسماں کی وسعتوں سے آگہی
نہ ہی طلسم رنگ و بو سے لاحقہ
فقط نقوشِ پیکر ازل سے چھڑ چھاڑ کرنی ہے۔۔

نظم کا یہ اقتباس اور اس جیسی کئی نظمیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ توحید پر کسی قلبی واردات کا نزول جس شدت سے ہوتا ہے وہ اسی شدت اور بے ساختگی کے ساتھ اسے شاعری میں بیان کرنے پر بھی قادر ہے۔ اس کی موضوعی دنیا میں جو ستارے بنتے اور ٹوٹتے ہیں وہ انہیں دیکھ کر افسردہ یہ خوش نہیں ہوتا بلکہ حیرت میں مبتلا ہوتا ہے اور حیرت کا یہی طلسم اسے انسپائر کرتا ہے لکھنے کیلیے، اظہار کرنے کیلیے، اپنے اور اپنے پڑھنے والوں کے شعری ذوق کی تسکین کرنے کیلیے۔ روایتی مبارکباد یا دعاؤں کی بجائے میں توحید کے پہلے شعری پڑاؤ کے پورا ہونے پر اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اور یہ خوشی طمانیت بخش ہے کہ توحید نے اپنے شعری سفر کی سمت کا تعین کر لیا ہے اس کے بعد اسکا سفر میں رہنا یا منزل پر پہنچنا بے معنی ہوجاتا ہے، اہم صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اس سفر سے کتنا حظ اٹھاتا ہے۔۔۔

جاتے جاتے توحید کی یہ نظم:

"بدن بھی نور کے نوالے ہیں”

یہ شہرِحُسنِ بےشمار ہے
یہاں کی عورتیں
بدن کو سیر گاہ جانتی ہیں
سو یہاں
نہ کوئی کیمرہ
نہ لین دین کا معاملہ
طرف طرف__کھلی کھلی فضا
کھلی فضا شکار گاہ ہے
طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک
یہاں شکار باز تیز بھی بہت ہیں اور رَذیل بھی
انہیں نہ زر، نہ آ چاہیے
انہیں تو بس بغل میں ایک ماہتاب چاہیے
جسے حرارتِ بدن پہ اعتقاد ہو
یہ خال و خد کے داد ور
یہ محفل ِ نمائشِ ادا میں سر بہ سر
یہ لوگ اصل میں
درِ ہوس کی دوسری طرف کے بھوک دار لوگ ہیں
شدید بھوک دار
سو، انہیں
نہ ٹوکیے___نہ روکیے
انہیں یہ بول دیجیے
چبا چبا کے کھائیے
دبا دبا کے کھائیے
بدن بھی نور کے نوالے ہیں

توحید زیب

Author

  • توحید زیب

    روحِ عصر کا شاعر ، جدید نظم نگار ، نظم و غزل میں بے ساختگی کے لیے مشہور

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x