اُردو ادبافسانچہ

کچھی بولان / شہزاد نئیر

بوڑھی اماں روتی رہتی تھی۔ کچھ کو پتہ تھا کہ کیوں۔۔۔۔۔۔اور کچھ کونہیں پتہ تھا۔ جن کو پتہ تھا وہ ان کو بتاتے بھی نہیں تھے جن کونہیں پتہ تھا۔ البتہ یہ سب جانتے تھے کہ سورج نکلتے ہی اماں نے رونا ہے۔ سورج ڈوبنے سے کچھ دیر پہلے پھر رونا ہے۔ رات گئے بھی رونا ہے۔ کبھی نہیں بھی رونا۔ لیکن جب رونا ہے تو لمبے لمبے بین ڈالنے ہیں جن کے الفاظ کسی کو بھی سمجھ نہ آتے تھے۔
کچھ کہتے تھے پندرہ بیس منٹ۔ کچھ کا خیال تھا آدھا گھنٹہ، کچھ کو لگتا تھا ایک گھنٹے سے بھی زیادہ۔ کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ کتنا وقت لگا لیکن یہ سب کو پتہ تھا کہ نازیہ شادی والے گھر سے ماموں زاد کے ساتھ اپنے گھر گئی تھی۔ یہ بھی سب کو پتہ تھا کہ اُس وقت نازیہ کا گھر خالی تھا۔ کچھ کا خیال تھا کہ وہ نیا ہار سیٹ پہننا بھول گئی تھی اور وہی لینے کے لیے رات کے اندھیرے میں تین گلیاں پار کر کے اپنے گھر گئی تھی۔ کچھ کو لگتا تھا کہ وہ انگوٹھی بھول گئی تھی۔ کچھ عورتیں بیان کرتی ہیں کہ وہ اپنی ماں کو بتا کر گئی تھی۔ بعض کا خیال ہے کہ بغیر بتائے خاموشی سے گئی تھی۔
پھر چار دن گذرے، یا دس دن یا شاید پندرہ دن۔۔۔۔۔۔جب نازیہ کو اُس کا چچا اونٹ پر بٹھا کر یہ کہہ کر لے گیا کہ آئو تمہیں تمہاری خالہ سے ملوا لائوں۔
اماں نے راستے کے لیے میٹھی روٹی پکا کر دی اور اپنی نوجوان بیٹی کو اُس کے چچا کے ساتھ روانہ کر دیا۔
جن کو پتہ تھا کہ اماں کیوں روتی ہے ان میں سے کچھ کا خیال تھا کہ نازیہ کے چچا کو اُس کے کسی دشمن نے غیرت کا طعنہ دیا تھا۔ کچھ یہ کہتے تھے کہ طعنہ کسی نے نہیں دیا تھا، چچا کو خود ہی غیرت آئی تھی لیکن وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ شام کو نازیہ کا چچا جب گائوں لوٹا تو وہ اونٹ پر اکیلا تھا۔ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اُس دن نازیہ اپنی خالہ کے گھر نہیں پہنچی تھی۔
بوڑھی اماں ساری عمر روتی رہی تھی۔ کچھ کو پتہ تھا کہ کیوں اور کچھ کو نہیں پتہ تھا۔

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x