منتخب کالم

پاکستانی معیشت: ایک زخمی پرندہ جو اُڑنے کا  خواہش مند ہے/


ایک  بار  پھر پاکستان کی معیشت ایک نازک موڑ  پر کھڑی  ہے،جہاں  مہنگائی کی بلند  لہریں، ریکارڈ سطح تک پہنچتی شرح سود،بڑھتا ہوا  قرض اورگرتی ہوئی سرمایہ کاری ایک ساتھ جمع ہیں۔

ایک  معاشیات کے طالب علم کی حیثیت سے میں نے ایڈم  اسمتھ کے ”اَن  دیکھی قوت“ اور مانگ و رسد کے خوبصورت  توازن کے بارے میں پڑھا ہے، مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ  پیچیدہ  اور دھندلی  ہے۔جب میں ”پاکستانی معیشت“ کا لفظ سنتی ہوں، تو میرے ذہن میں اب خاکے یا گراف نہیں آتے، بلکہ ایک زخمی پرندہ آتا ہے، جو تھکے ہوئے  پروں سے ایک ہی جگہ پر پھڑپھڑا رہا ہے، نہ  اْڑ نے کے قابل، نہ گِرنے کو تیار۔

یہ نازک حالت یکدم نہیں بنی۔ پچھلے دو سالوں میں پاکستان کوایک کے بعد ایک جھٹکا لگا جیسے سیاسی عدم استحکام، عالمی ایندھن کی قیمتوں  میں اضافہ،کووِڈ-19 کے بعدکے اثرات اور 2022ء کے تباہ کن سیلاب۔ ان حالات کے جواب میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مہنگائی کو قابو میں لانے اورگرتی ہوئی کرنسی کوسہارا دینے کے لئے پالیسی ریٹ  22  فیصد تک بڑھا دیا جو دنیا کی بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔

اگرچہ حالیہ مہینوں میں مہنگائی میں کمی آئی ہے،جو جون 2025 ء تک 3.2 فیصد تک پہنچ گئی،لیکن اس ”استحکام“ کی قیمت بہت بھاری رہی۔ کارخانے سست روی کا شکار ہو گئے، روزگار ختم ہونے لگااورعام آدمی  زندگی کی بنیادی ضروریات  پوری کرنے کے لئے سکے گننے پر مجبور ہوگیا۔ 

سوال  یہ  ہے کہ کیا ہم  نے قیمتوں کو قابو میں لانے کی دوڑ میں ترقی کا خواب کہیں پیچھے تو نہیں چھوڑ دیا؟

بظاہر  پاکستان کے  پاس کئی پالیسی آپشنز  موجود ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا راستہ پہلے سے متعین ہو چکا ہے آئی ایم ایف سے کئے گئے پرانے معاہدوں، ماضی کی پالیسیوں  اور عالمی دباؤ  نے ہماری راہوں پر گہرے نقوش چھوڑ دیئے ہیں۔

 ہم کوئی نئی راہ نہیں چن رہے، بلکہ ایک پرانی اور آزمائی ہوئی پگڈنڈی پر قدم رکھے ہوئے ہیں۔

بار بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنا اسی پرانی سوچ کی علامت ہے۔ ہر بحران میں ہم انہی نسخوں کی طرف لوٹتے ہیں، جس کا نتیجہ ہمیشہ شرح سود میں اضافہ،  بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ اور معیشت کی سست  روی کی صورت میں نکلتا ہے،مگر یہ اقدامات اگرچہ مہنگائی کی آگ کو تھوڑا بجھا دیتے ہیں، لیکن ساتھ  ہی ترقی کی روشنی کو بھی مدہم کر دیتے ہیں، اور معیشت کو جمود کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔

یہ بیرونی امداد چاہے وہ آئی ایم ایف کی ہو یا دوست ممالک کی طوفان میں لگنے والے وقتی مرہم کی مانند ہے، لیکن ہر قرض کے ساتھ سخت شرائط جُڑی ہوتی ہیں: سبسڈی کا خاتمہ، ٹیکسوں میں اضافہ اور مزید سخت مالیاتی اقدامات۔

جو آغاز میں نجات نظر آتی ہے، وہ جلدہی ایک اوربوجھ بن جاتی ہے۔ ہم پرانے قرضے چکانے کے لئے نئے قرضے لیتے ہیں اور اس کی قیمت عام لوگ چکاتے ہیں مہنگائی، بیروزگاری اورکم ہوتی ہوئی اُمیدوں کی صورت میں۔ ترقی سست ہو جاتی ہے، آمدنی گھٹتی ہے اوریہی چکر ایک بار پھر شروع ہو جاتا ہے یہ وہی جال ہے جو بہت سے ترقی پذیر ممالک کو جکڑ چکا ہے۔

معاشیات کے طالبعلم کی حیثیت سے میں اب جان چکی ہوں کہ صرف شرح سود بڑھانے سے کوئی معیشت بحران سے نہیں نکل سکتی۔

ہمیں ایک جامع اورجرأت مند وژن کی ضرورت ہے ایسا وژن جو اداروں کو مضبوط کرے، ٹیکس نظام کو بہتر بنائے، زراعت اور  برآمدات میں سرمایہ کاری کرے، اور نوجوانوں اورخواتین کی قیادت میں چھوٹے کاروباروں کو سہارا دے۔

اچھی حکمرانی اور معقول پالیسی ساتھ ساتھ چلنی چاہئے اورمالیاتی وبجٹ پالیسیوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ صرف اسی صورت میں ہم بحران سے نکل کر پائیدار ترقی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

ایک ایسے ملک میں جہاں 60  فیصد سے زیادہ  آبادی  30 سال سے کم عمر ہے، وہاں کمزور معیشت کا بوجھ نوجوان نسل پر آتا ہے۔ شرح سود صرف مہنگائی کو ہی نہیں دباتی، بلکہ خوابوں کا بھی دم توڑ دیتی ہے۔سٹارٹ اپس دم  توڑنے لگتے ہیں، روزگار کے مواقع سکڑ جاتے ہیں۔

پاکستان کی معیشت اس وقت ایک نازک دھاگے سے بندھی ہے۔ ہاں،مہنگائی کم ضرور ہوئی ہے لیکن کس قیمت پر؟ شاید ایک انسانی قیمت پر؟

ہراعداد و شمارکے پیچھے ایک کہانی چھپی ہے جوکہ ایک کھوئی ہوئی نوکری، ایک رُکی ہوئی تعلیم، ایک خاموش باورچی خانہ ہے۔اب ترقی صرف گرافوں میں نہیں بلکہ ہماری زندگیوں میں بھی واپس آنا چاہئے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک کے بعد ایک بحران جھیلنے کے بجائے ایک ایسا مستقبل تعمیرکریں جہاں استحکام ایک امتیاز نہیں،بلکہ ایک وعدہ ہو۔ایسا مستقبل جہاں ہر شہری،ہر خواب اور ہر نسل کو سانس لینے،پڑھنے اورآگے  بڑھنے کی جگہ میسر ہو۔

٭٭٭٭٭





Source link

Author

Related Articles

Back to top button