اُردو ادبافسانہ

مجازی خدا/ کلثوم پارس

"ایک عورت نے اپنے شوہر کو پانی دینے سے انکار کیا تھا۔۔۔۔۔ تو مرنے کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ کولہو کے ساتھ بیل کی جگہ جُتی ہوئی ہے۔ اپنے مرد کے آگے زبان نہ چلایا کر !!!!تو زبان چلائے گی تو وہ ہاتھ چلائے گا۔”
دادی آج بھی امی کے گھر میں کام کرنے والی شکیلہ کو مرد کے فضائل پہ لیکچر دے رہیں تھیں۔

"دقیانوسی !!!!!”

اتنا کہہ کر میں امی سے کچھ ضروری بات کرنے کے بعد ڈیوٹی پر روانہ ہو گئی۔ میرے اور امی کے گھر کے میں زیادہ فاصلہ نہیں تھا اس لیے صبح وشام کا آنا جانا تھا۔
ہم دونوں میاں بیوی قریبی اسپتال میں ڈاکٹری کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ شیڈول کچھ ایسے طے کیا ہوا تھا کہ جس دن میری رات کی ڈیوٹی ہوتی تو میرے شوہرِ نامدار میرے بیٹے احمر کو سنبھالتے۔۔۔۔ اسی طرح زندگی کے شب و روز قدرے اچھے گزر رہے تھے۔ مگر۔۔۔۔۔۔ کل جب میں تھکی ماندی گھر پہنچی تو پورا گھر احمر کے رونے کی آواز سے گونج رہا تھا ہزاروں جتن کرنے کے بعد ذیشان احمر کو سلانے میں ناکام رہے تھے۔

"اچھا ہوا تم آ گئیں یہ چپ نہیں ہو رہا۔ احمر کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔فیڈر بھی نہیں لے رہا۔۔۔۔۔ بخار بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔”

تھکاوٹ سے میرا برا حال تھا میں نے تو غصے میں ذیشان کو کھری کھری سنا دیں۔

"مگر عاتکہ یہ چپ نہیں ہو رہا۔۔۔۔۔ اور آیا بھی چھٹی پہ ہے۔” ذیشان نے التجائیہ لہجہ میں کہا۔

"ہو جائے گا چپ۔۔۔۔۔ ویسے بھی میں نے کہا تھا کہ بچہ ابھی نہیں۔۔۔۔۔ تمہاری ہی ضد تھی۔ اگر یہ سب کچھ پری پلین ہوتا تو یوں خواری ی نہ کاٹنی پڑتی۔۔۔۔ میں گھر داری اور نوکری کے درمیان گھن چکر نہ بنی ہوتی ۔” میں نے اپنی ساری بھڑاس آج ہی نکالنی تھی۔

"ہماری سٹڈی پری پلین تھی۔۔۔۔۔ محبت اور شادی پری پلین تھی……. میڈیکل کی پڑھائی اور نوکری پری پلین تھی اگر بچہ پری پلین نہیں تو کون سی قیامت آ گئی ہے۔ تم اس کی حالت تو دیکھو!!! ” تم کیسی ماں ہو؟؟؟؟ ذیشان تو جیسے برس پڑا۔

"میں ماں ہوں تو تم باپ ہو۔۔۔۔۔

"ہاں!!!! ہوں باپ!!! مگر اس وقت اسے تمہاری ضرورت ہے اس وقت جو تم اسے دے سکتی ہو وہ میرے پاس نہیں ہے۔۔۔۔۔

"دیکھو!!!! تم جاہل مردوں کی طرح شوہر بننے کی کوشش کر رہے ہو۔۔۔۔۔” میں نے بھی آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔

” میں شوہر بننے کی کوشش نہیں کر رہا۔۔۔۔۔ میں شوہر ہوں۔۔۔۔”
ہوں…… پہ زور دیتے ہوئے وہ مجھ پہ حکم صادر فرما رہا تھا۔ تھکن سے میرا وجود اور نیند سے آنکھیں بوجھل تھیں مگر ذیشان حکم نامہ جاری کر کے کمرے کا دروازا پٹخ کر باہر جا چکا تھا۔
کمرے میں چاروں طرف پھیلی بے چارگی سے نظریں چراتے ہوئے میں نے اپنے بیٹے پر ایک نگاہ ڈالی جس کا گلہ رو رو کر خشک ہو چکا تھا میں نے جیسے ہی اسے اٹھایا اسکا رونا تیز طوفانی ہوا سے آہستہ آہستہ نرم ہوا کے جھونکوں میں تبدیل ہو گیا میں نے اسے اپنے ساتھ لگا کر بھینچا تو محسوس کیا کہ میں غصہ میں جان ہی نہ پائی کہ اس وقت میرے بچے کو میری کتنی ضروت ہے اسے ماں کی ممتا کی ضروت تھی جو ذیشان کے پاس نہیں تھی۔

میں نے خونِ جگر سے اس ننھے پودے کی آبیاری شروع کر دی۔جیسے ہی اس کا شکم سیر ہوا تو میرے سینے میں بھی ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ وہ چھوٹی چھوٹی سسکیاں بھرتا سو گیا۔ مجھے بھی اطمینان کی آغوش نصیب ہوئی اور جانے کب میں بھی نیند کی وادیوں کی سیر کو نکل گئی۔

::::::::::::::::::
یہ وقت گزرا تو سہی مگر بہت سے تشنہ سوالوں کی پیاس بجھا گیا۔ پھر ایک مصروف صبح نے انگڑائی لی اور میں انگڑائی لیے بغیر ہی چل سو چل اسپتال کے لیے نکل پڑی۔۔۔۔۔ صبح صبح چوراہے پر جام ٹریفک نے دماغ خراب کر رکھا تھا۔
بے ہنگم ٹریفک کا شور۔۔۔۔۔۔۔۔رکشہ اور بس کی ٹکر۔۔۔۔۔۔گاڑی اور موٹر سائیکل والوں کی تکرار۔۔۔۔۔۔ عجیب سی کھچڑی بنی ہوئی تھی۔ اتنے میں ایک ٹریفک پولیس اہلکار آیا اس نے سب سے پہلے بے ہنگم ٹریفک کو ایک ترتیب دی اور یوں گاڑیاں ایک دوسرے کی قید سے آزاد اپنی اپنی راہ پر گامزن ہو گئیں۔ اور میں بھی وقت پر اسپتال پہنچ گئی۔

کل اور آج کے ٹریفک والے واقعات مجھے بہت سے سبق سکھا گئے۔ زندگی کی سڑک پر موجود خواہشیں , تمنائیں ,سٹیٹس, نوکری اور انا زندگی کے گول چکر کے گرد کھڑی بے ترتیبی سے ایک دوسرے کو لتاڑ کر گزرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ ایسے میں ٹریفک سگنل "اصول وقواعد” بہت اہمیت رکھتے ہیں۔۔۔۔یہ ٹریفک سگنل کسی نے یقیناً بڑی سوچ بچار کے بعد بنائے ہونگے۔
کس طرح لال بتی پر رُکنا ہے ۔۔۔۔۔کتنی دیر رُکنا ہے۔۔۔۔ اور نہیں رکے تو حادثہ مقدر بن سکتا ہے۔

پھر پیلی بتی پر چلنے کے لیے تیار ہونا ہے۔۔۔۔۔

اور سبز بتی کے جلنے پر اپنے راستے پر تیزی سے نکل جانا ہے ۔
یہ لال پیلی اور سبز بتیاں زندگی کی پوری ترتیب بناتی ہیں اگر عام زندگی میں ان کو فالو نہیں کریں گے تو حادثات ہمارا مقدر بن جائیں گے۔۔۔۔۔ گھر ٹوٹ جائیں گے۔۔۔۔۔ رکیں گے نہیں تو بہت کچھ پیچھے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔۔ تیار نہیں ہوں گے تو یک دم مخالف سمت سے آتے ہوئے کسی سے ٹکڑا جائیں گے اور اگر وقت پر نہیں چلیں گے تو پیچھے سے آنے والے آپ کو ڈفر۔۔۔۔۔ بیوقوف کہہ کر کچل کر آگے نکل جائیں گے۔

ایک طرف سے آنے والی ٹریفک کو روک کر دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک کو گزارنا ہوتا ہے بعض کاموں کو کچھ وقت کے لیے مؤخر کرنا اور سمجھوتہ کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اس سے رشتے ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
کچھ کام بعد میں کرنا ضروری ہوتے ہیں اور بعض کام تاخیر سے کرنے سے اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں اور پھر لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تینوں بتیاں مجھے زندگی کا الجبرا سکھا گئیں۔
میرے بچے کو میری ضرورت تھی اس کام کو مؤخر نہیں کیا جا سکتا تھا۔

میں تھوڑی دیر کے لیے یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ٹریفک کے بیچوں بیچ سگنل نہ ہوں تو گاڑیوں پہ گاڑیاں چڑھ جائیں۔ زندگی کے مسائل کا ریشم الجھ کر رہ جائے اور یوں کوئی سرا تلاش کرنا مشکل ہو جائے۔

میری نظر ٹریفک پولیس اہلکار پر پڑی سو اس سوال پر مجھے زیادہ نہیں سوچنا پڑا اس ٹریفک پولیس اہلکار نے اپنی ٹریننگ کو ضائع نہیں کیا تھا اور اسے بروئے کار لاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے ٹریفک کے جمِ غفیر کو چند منٹوں میں ترتیب میں لا کر رکھ دیا تھا۔ اور اب ہر کوئی ایک دوسرے کو کچلے بغیر آگے بڑھ رہا تھا۔ زندگی میں بھی ایسے ہی ٹریفک پولیس اہلکار کی ضرورت ہوتی ہے جن کے مشورے ہماری زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے میں بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اور میری زندگی میں یہ کام ہمیشہ دادی کیا کرتی تھیں۔ اپنی کہانیوں اور حکایتوں کے ذریعے بڑی بڑی گھُتھیاں منٹوں میں سلجھا دیتیں تھیں۔ جب سے "میرا جسم میری مرضی” جیسی آلودہ ہوا چلی تھی تب سے دادی ہمیشہ کہتی تھیں:

” مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔” یہ فضیلت اللہ نے انہیں دی ہے۔

"ہر ایک کے ذمے کام ہیں جس کا کام اسی کو ساجھے۔ ”

میں اپنی ذہنی جنگ لڑنے کے بعد دادی کے فلسفے کی قائل ہو گئی تھی۔ ذیشان نے مجھے حکم دیا تھا یا نہیں۔۔۔۔۔ اس نے مجھے سمجھایا تھا کہ زندگی کی گاڑی کس طرح بہتر انداز سے چل سکتی ہے میاں بیوی لاکھ دوست سہی مگر کبھی کبھار شوہر کا شوہر بن کر بات کرنا بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔

:::::::::::::::::

میں آج دادی سے کوئی حکایت سننے لگی تھی مگر ایک خبر نے میرے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے۔ دادی کے استفسار پر میں نےانھیں بتایا :
” شکیلہ کے شوہر نے کھانا تاخیر سے دینے پر اسے مارا اسی اثناء میں وہ اپنی کوکھ میں پلنے والے بچے سے ہاتھ دھو بیٹھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں سوچ رہی ہوں کہ کھانا تاخیر سے لانے پر شکیلہ کولہو کا بیل بنے گی یا اس کا "مجازی خدا؟؟۔”

✍️کلثوم پارس

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x