اُردو ادبافسانہ

سچائی کا سانحہ / رانا سرفراز احمد

سچائی کا سانحہ
Tragedy of Truth
‎ فطرت گہرے رازوں کو
‎ ہمیشہ کیلئے چھپانے کی خاطر سفید رنگ بہت پسند کرتی ہے۔ چاہے وہ قطبین پر جمی ہوئی ہزاروں فٹ اونچی برف ہو یا پھر کسی بیوہ کے جسم پر مستقل سفید لباس میں دفن سر بستہ دکھ۔۔۔

‎شمالی اور جنوبی قطبین پر جمتی ہوئی سینکڑوں فٹ اونچی برف جس کے نیچے فطرت ایک طرف تو زمانۂ قدیم کے انسانوں کو آئندہ زمانے کے انسانوں کیلئے چھپا رہی تھی وہیں دوسری طرف ایک پہاڑ کی کھوہ میں بستے ہوۓ کئی نینڈرتھل انسانوں کے ایک فرد کے ذہن، نظر اور دل پر پڑی ہوئی ازلی برف پگھل رہی تھی اور اسے کچھ عجیب عجیب سا محسوس ہو رہا تھا اس لئے وہ ایک اونچے درخت کی بلند شاخوں پر جا بیٹھا اور غور و فکر کرنے لگا۔
‎دور موجود سمندر کی لہروں میں ہلکا ہلکا ارتعاش بڑھنے لگا تھا۔ جیسے کچھ نیا ہونے والا ہو یا سمندر اپنے قیمتی خزانے کسی کے حوالے کر کے اپنی جگہ بدلنے والا ہو۔

‎یہ کہانی ہے اس نیانڈرتھل انسان کی جس پر انسانیت کی پہلی وحی نازل ہوئی اور جس نے گہری، نم آلود، موت اور زندگی کے مابین حدِّ فاصل بنی ہوئی سیاہ اور تنگ و تاریک غاروں سے نکل کر تخیل کے بلند درخت پر بیٹھ کر انسانیت کے طلوع ہوتے ہوۓ سورج کی پہلی کرن دیکھی اور پھر اپنے سچے خواب کی قیمت اس پیغمبر کی طرح ادا کی جس کو آرے کی مدد سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا گیا۔ لیکن وہ تو پیغمبر بھی نہیں تھا کہ اس کی گواہی زمین و آسمان دیتے۔۔۔ اس کو آنے والے انسان نے بھی غلط ہی سمجھا۔

‎آدھی رات کا پرہول سناٹا چیخ چیخ کر اندھی موت کی حکمرانی کا اعلان کر رہا تھا کچھ ساۓ جاگ رہے تھے جبکہ کچھ بند دماغوں اور بند آنکھوں کے ساتھ ابتدائی دنوں کے نوزائیدہ بچے کی طرح دنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہے تھے۔ کہ اس نے اچانک جنگلی درندوں سے حفاظت کی خاطر جلائی جانے والی آگ بجھا دی جس پر ہر طرف سے ہاؤ ہو کا شور پڑا سب اسے مارنے کیلئے دوڑے لیکن پھر اس نے ہاتھ میں لکڑی کا بڑا سا لٹھ اٹھایا اور تبھی اچانک سب رک گئے اور خاموشی سے دیکھنے لگے اور اندر ہی اندر انتظار کرنے لگے کہ شاید اب اس پر کوئی آفت آنے لگی ہے لیکن اس نے پتھر رگڑ کر پھر سے آگ جلا ڈالی اور کچھ بھی نہ ہوا۔
‎البتہ ایک شخص جس کے سر پر کافی سارے پرندوں کے پر تھے، وہ اسے غیض و غضب سے دیکھتا رہا۔ اور دور لیٹی ہوئی اس کی ماں، اس کا باپ اور اس کے ساتھ ایک ہی غار میں رہنے والے اسی جیسے چھوٹے بڑے انسان اسے حیرانی و پریشانی کے ملے جلے احساسات کے ساتھ دیکھنے لگے۔

‎شام کو سبھی اس الاؤ کے گرد بیٹھے تھے اور ہر کوئی اس وہم میں مبتلا تھا کہ کہیں یہ پھر آگ نہ بجھا دے تھوڑی ٹھوڑی دیر بعد سب اسے اپنا لکڑی کا لٹھ، یا ہڈی کا لمبا سا ٹکڑا یا پتھر کا تیز نوکیلا ٹکڑا دکھاتے تا کہ وہ آگ نہ بجھا سکے لیکن پھر ایک انسان نے اسے پکڑا اور گھسیٹ کر اپنے ساتھ لگا لیا۔ اور ہمیشہ اس انسان کے پاس سکون ملتا تھا اور وہ سوچتا کہ باقی اس کی طرح کیوں اسے ساتھ نہیں لگاتے۔ وہ ہمیشہ اپنے سخت جسم اور اس کے نرم جسم کا موازنہ کرتا اور اپنے اور اس کے جسم میں فرق دیکھ کر حیران ہوتا لیکن پھر جلد ہی سو جاتا۔ اگلے دن وہ اٹھا تو باہر اسے کچھ بھی نظر نہ آ رہا تھا وہ اندازے کے ساتھ پاس ہی موجود اونچائی پر چڑھ گیا جہاں اسے اکثر کچھ کھانے کو مل جاتا تھا میٹھا سا، رس دار سا۔ لیکن وہ کھانے کو چھوڑ کر دور سے نکلتی ہوئی ایک چمکدار آگ کی طرح محسوس ہونے والی گول گول چیز کو دیکھنے لگا یہ منظر اسے ہمیشہ پسند آتا تھا۔

‎آج جب وہ نیچے اترا تو وہی بڑے بڑے شخص جس کے سر پر بڑے بڑے پروں کا تاج ہوتا تھا، اسے دیکھ کر دوسروں پر چلا رہا تھا۔ لیکن اس نے پرواہ نہ کی بلکہ اس نے کچھ سوچا اور کہیں چلا گیا۔ کافی دن بعد لوٹا تو اس کے ساتھ ایک جنگلی درندہ تھا جسے اس نے کھانا دے کر اپنا پالتو بنا لیا جو اس کے اشاروں پر دوڑتا تھا۔ باقی سب نینڈرتھل انسان اس سے اور اس کے پالتو درندے سے ڈرنے لگے جبکہ وہ شخص جس کے سر ہر پروں کا تاج تھا وہ اسے ہر وقت تشویشناک اور غصے بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس نے غار میں رہنے والے سب انسانوں کے سامنے اس پر ہاؤ ہو کر کے اس کے بارے میں سب انسانوں کو محتاط کر دیا۔


‎جنگل میں موسم بدلنا شروع ہو چکا تھا۔ آب و ہوا میں آنے والی اس تبدیلی سے شدید بارش شروع ہو گئیں سب لوگ غار میں چھپ کر بیٹھ گئے بجلی کے کڑکنے پر سبھی ماتھے کو زمیں پر رکھتے اور مٹی میں سر چھپا کر روتے اور اونچی اونچی آوازیں نکالتے اور چیختے چلاتے گویا وہ اپنی کسی نادیدہ طاقت کے آگے جھکنے والی جبلی خواہش کی تسکین کر رہے ہوں جبکہ وہ کبھی درخت ہر بیٹھتا اور کبھی کھلے میدان میں جا کر بارش میں نہاتا، بادلوں کو دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتا اور بجلی کی چمک کو دیکھ کر کبھی ڈرتا اور کبھی اس کو اپنے ہی جیسے کسی انسان کی آواز سمجھ کر اوپر آسمانوں کے اس پار اس انسان کو تلاش کرنے لگ جاتا لیکن پھر کچھ نہ پا کر دوبارہ اپنی سوچ میں غرق ہونے لگتا۔

‎اسے بڑے پروں کا تاج سجاۓ ہوۓ اس شخص سے نہ ہی ڈر لگتا تھا اور نہ ہی اسے اس کی عادات ٹھیک لگتی تھیں وہ محسوس کرتا کہ اس کا مقصد صرف سب کو ڈرانا اور دبا کر رکھنا تھا۔ تا کہ سب اسے گوشت لا کر دیں اور اس کے آگے جھکیں۔

‎وہ سب سے الگ اور منفرد تھا سب نے اس کو سمجھنے کی کوشش کی وہ شکار پر کم جاتا اور ارد گرد موجود اشیاء کے متعلق زیادہ سوچتا۔ سب نے اسے سمجھنے میں ناکام ہونے پر اس کو الگ تھلگ کر دیا، کوئی اس سے ڈرتا کوئی اس سے نفرت کرتا کوئی اس پر نظر رکھتا کسی کو اس کے بارے میں تجسس ہوتا۔

‎صرف ایک عورت جو اس کو اکثر دیکھتی رہتی اور اسے پسند کرتی۔ لیکن نہ اسے کچھ سمجھ آتی اور نہ ہی کچھ بتا سکتی اور نہ وہ کچھ سمجھ پاتا اور نہ اسے بتا سکتا۔

‎بہت سال گزر گئے وہ بہت جوان اور باقی سب سے مختلف، باغی لیکن دوسروں کے کام آنے والا بن چکا تھا۔ وہ نہ زیادہ شور و غل مچاتا اور نہ ہر وقت زمین میں سر چھپا کر ڈرتا یا روتا رہتا۔ وہ ہر چیز کو دیکھ کر سوچتا اور پھر آہستہ آہستہ اس کا استعمال سیکھ لیتا۔ اس نے بوڑھے نینڈرتھل انسانوں کو شکار لا کر دینا شروع کر دیا، جنگلی درندوں کو بچپن سے لے کر پالنا اور غلام بنانا سیکھ لیا۔ پتھروں کو کاٹ کر مختلف اشیاء بنانا سیکھ لیا، حتیٰ کہ اس نے آگ پہ گوشت بھوننا بھی سیکھ لیا اور دوسرے لوگوں نے اس سے یہ سب کچھ سیکھ لیا وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔ بوڑھے اسے مدد کیلئے بلانے لگے بچے اس سے کھیلنے لگے عورتیں اس کی موجودگی میں تحفظ محسوس کرنے لگیں۔ اردگرد غاروں میں رہنے والے اسے پسند کرنے لگے۔ برسوں بیت گئے۔

‎لیکن ابھی بھی کچھ انسان ایسے تھے جو اس سے مزید نفرت کرنے لگے، وہ اس کو کبھی کبھی پتھر کھینچ کر مارتے کبھی ہڈی سے مارتے اور کبھی اس پر مختلف کیڑے مکوڑے پھینکتے کبھی اسے دیکھ کر اونچی اونچی بے ہنگم آوازیں نکالتے۔ یہ سب لوگ جوان تھے۔ ان میں بوڑھے، بچے اور عورتیں نہ تھیں کیونکہ وہ ان سب کے کام آتا تھا۔ ان سب نقصان پہنچانے والوں کا سردار وہی تاج والا شخص تھا۔

‎ایک دن اس تاج والے سردار نے سب جوانوں کو اکٹھا کیا اور غصے اور نفرت سے اسے دیکھنے لگا۔ سب اس کی اندھی تقلید کرنے لگے۔لیکن اس نے کسی کو غصے سے نہ دیکھا۔ حتیٰ کہ ان میں سے ایک نے اسے زور دار پتھر مارا دوسرے نے ہڈی کا وار کیا باقی سب ناخنوں سے اسے نوچنے لگے۔ غار کے بزرگوں بچوں، عورتوں اور نوجوان عورتوں میں سے کسی کو کچھ پتہ نہ چلا وہ اسے بچانے نہ آ سکے اور انہوں نے اسے غروب ہوتے ہوۓ سورج کی سرخ روشنی میں مار ڈالا۔

‎اس دن شام کو سب آگ کے پاس اکٹھے تھے لیکن وہ نہ آیا۔ سب خاموشی سے ادھر ادھر جھانکنے لگے اور ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ تاج والا آدمی اور اس کے ساتھ موجود لوگ آج بہت شور و غوغا کر رہے تھے۔ انہوں نے آج ہی ایک تازہ شکار کیا تھا اور اس نوجوان کو اسی کے بتاۓ ہوۓ طریقے پر آگ پر بھون کر کھا رہے تھے اور بہت خوش تھے۔

‎دن گزرے، موسم گزرے لمبا عرصہ گزر گیا لیکن وہ کبھی واپس نہ آیا۔ البتہ اب غاروں میں رہنے والے باقی لوگوں نے اس سے درندوں کو پالنا، بادل، بارش،بجلی اور آگ سے سے نہ ڈرنا، پانی میں نہانا، درخت پر چڑھنا، لوگوں کے کام آنا اور زیادہ چیخنے چلانے کی بجاۓ خاموش رہنا سیکھ لیا تھا۔ شدید سردیوں، حبس زدہ برسات اور پُرسکون ہواؤں کے کئی موسم آۓ اور گزر گئے۔

‎وہ تاج والا شخص اب پریشان، مغموم اور اداس رہنے لگا اس کے سب ساتھی اسے کمزور سمجھ کر چھوڑ کر جا چکے تھے۔ وہ کبھی کبھی اس جگہ جاتا جہاں انہوں نے مل کر اسے مار ڈالا تھا۔ اس کے اندر شرمندگی اور جرم کا احساس پیدا ہو چکا تھا اور یہ احساس ان سب انسانوں کے احساس سے مختلف تھا ایسا احساس جو صرف مجرم کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اور تاج والا شخص وہ پہلا انسان تھا جس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا۔

‎ایک دن اس نے سر پر تاج پہنا، گلے میں اسی نوجوان کی ہڈیوں کا ہار لٹکایا اور آگ جلا کر اس میں خود کو پھینک دیا۔ لوگ جب شام کو اس کے غار میں آۓ تو وہ جل چکا تھا صرف اس کا ڈھانچہ باقی تھا۔ کہ اتنے میں ایک بڑا سا پتھر اور مٹی کا ملبہ گرا اور سبھی لوگ جو اس کے گرد بیٹھے تھے وہ اس کے نیچے دب گئے۔

‎انٹارکٹیکا کی برف کے نیچے سے ملنے والا یہ ڈھانچہ دو ملین سال قدیم لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی مجرم یا گنہگار یا شاید بیمار تھا اسی لئے اسے بری طرح مار مار کر دور پھینک دیا گیا۔ کیونکہ تب لوگوں کو انسانی وجود کی بیماریوں کا علم نہ تھا اور بیمار کا علاج کرنے کی بجاۓ اسے ایک بوجھ سمجھ کر دور پھینک دیا جاتا تھا جبکہ باقی نینڈرتھل انسانوں کے ڈھانچے اکٹھے ملے ہیں۔ وہ ایک ایسے انسان کے ارد گرد بیٹھے تھے جو شاید ان کا لیڈر رہا ہو یا ان کا کوئی رکھوالا یا پسندیدہ انسان۔۔۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو ایک سچ تلاش کر لینے پر انعام دیا گیا اور ان کا تحقیقی مقالہ تاریخ کی بہترین
‎دستاویز قرار پایا۔
‎رانا سرفراز احمد

Author

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button