احمد نعیم!
کیا تم نے
کبھی وہ پرندہ دیکھا ہے
جو ہر شام
اپنے پر نوچ کر
کسی اجنبی آسمان کے حوالے کر دیتا ہے؟
وہ جانتا ہے
یہ سودا نہ چاہت کا ہے
نہ خواب کا
نہ واپسی کی کسی امید کا
یہ تو ایک عادت ہے
خود کو دان کرنے کی
کسی ایسی شاخ کو
جو کل کو سوکھ جائے گی
وہ یہ بھی جانتا ہے
محبت اگر سودا بن جائے
تو روح اور دل دکان بن جاتی ہے یا
تولنے والی ترازو ۔۔
احمد نعیم !
مجھے لگتا ہے
تم وہی پرندہ ہو
جو جنگل کے سناٹے میں
اپنی آواز گرا دیتا ہے
اور خود خاموش ہو جاتا ہے
نہ کسی صلے کی خواہش
نہ کسی شکایت کی ضد
بس
راستوں میں بکھرتی ہوا کی طرح
جو بنا بتاۓ کسی کی سانس بن جائے
تم فقط
وہ آنکھ ہو سکتے ہو
جو خواب دیکھتی ہے
دوسروں کے لیے
یا
وہ مٹی
جس میں اگتے ہیں
کسی اور کے موسم
اس لیے سنو!!
نہ وعدہ، نہ قسم، نہ بندھن
نہ کوئی چھاؤں مانگو
نہ پھل کی تمنا رکھو
نہ شکایت کی ڈالی اگاؤ
بس پر بنو
اڑان بھرو
اور خود کو
آسمان کے سپرد کر دو
کہ شاید
کبھی کسی شام
کوئی تنہا سوکھی ہوئی شاخ
تمہاری بخشش سے
پھر سے ہری ہو جائے
بہت دور مالی گاؤں میں ۔۔۔۔!!!