اُردو ادباُردو شاعرینظم
فیک بوکھلاہٹ / توحید زیب
نظم : فیک بوکھلاہٹ
شاعر : توحید زیب
صاف شفاف دن کے دسترخوان پر
جب شام
زندگی کا طلاق نامہ پیش کرتی ہے تو آدمی
جھنجھلا کر
اپنا نوالۂ تر کھانے کی میز پر گِرا دیتا ہے
ہم نوالہ سبھی
اپنے داہنے ہاتھ نوکرانیوں کی قمیض سے فوراً نکال لیتے ہیں
منکوحہ عورتوں کے پیٹ پر انگور کاٹتے سفید لومڑ
اپنے رفیق کی ناگہاں موت کی خبر سنتے ہی
دو دن اور ایک رات کے لیے
ہوس کی گولیاں نہیں کھاتے
اگلی رات اور پھر وہی بات
بھائی صاحب !
یہ ساری فیک بوکھلاہٹ ہے
یہ جاہل سماج ہے
یہاں منھ کا ذائقہ
طمانچوں کا محتاج ہے



