غزل

غزل /سامان دل سمیٹ یہ خالی دکان چھوڑ /طاہر محمود ہاشمی

غزل 

طاہر ہاشمی

اپنے ظہور کا کہیں واضح نشان چھوڑ

میرے مکان کے لیے وہ لامکان چھوڑ

 

آخر خدا پرست رہا تُو نہ بت پرست 

کس نے کہا ہے دین کو یوں درمیان چھوڑ

 

کاہے چپک کے بیٹھ رہا بے وفا کے ساتھ

دنیا رہی نہیں ترے شایانِ شان چھوڑ

 

یہ فرضِ عین ہے یہاں غفلت نہ اب برت

ہر سمت بے ثباتی ہے اس کا تُو دھیان چھوڑ

 

سر کو جھکا حضورِ وجود و شہود بھی

پہلے ذرا یقین سے وہم و گمان چھوڑ

 

دریا کی تیز موجوں نے برتا ہے کب لحاظ

جائے اماں تلاش لے ساحل کا مان چھوڑ

 

محدود ہیں کمیتیں، جذبات کچھ نہیں

سامانِ دل سمیٹ یہ خالی کی دکان چھوڑ

 

مَیں نے دیارِ شوق میں جانا ہے لازماً

اب ہاتھ میرے ہاتھ سے اے مہربان چھوڑ

 

اتنا بھی بد سلوکی پہ ٹھہراؤ مت دکھا

غم خوار جو نہیں تِرا وہ خاندان چھوڑ

 

اِس شرط پر مَیں صلح کو لاؤں گا اپنے لوگ

تُو پھول کے مقابلے تیر و کمان چھوڑ

 

اے عشق ، دیکھ ، آخری خواہش تو مان جا

للہ جان لے مری اور میری جان چھوڑ

 

طاہر تُو خاک زادہ ہے مت بھول اپنی اصل

فرشِ زمیں پہ آ ذرا اونچی اڑان چھوڑ

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x