غزل
غزل / جبر کی کوکھ سے بھی پیار نکل آیا ہے / نسیم عباسی
غزل
جبر کی کوکھ سے بھی پیار نکل آیا ہے
مارنے والا مدد گار نکل آیا ہے
میں کہاں بیٹھ کے پاؤں سے نکالوں کانٹے
دشت کا دشت ہی پر خار نکل آیا ہے
رات دن مانگتا رہتا ہے دعا بارش کی
ایک پودا سرِ دیوار نکل آیا ہے
دیکھنے میں وہ گراں قدر نظر آتا تھا
گفتگو کی تو سبک سار نکل آیا ہے
لوگ پتھر کے زمانے کی طرف دوڑ پڑے
شہر کے وسط میں بھی غار نکل آیا ہے
جو کبھی میرے لیے راحتِ جاں ہوتا تھا
اب وہی باعثِ آزار نکل آیا ہے
تم کسی اور کے کاندھوں پہ بھی بونے نکلے
میرا قد کاٹھ سرِ دار نکل آیا ہے
دل میں ٹوٹے ہوئے بت میری زباں بولتے ہیں
یہ کھنڈر کتنا پر اسرار نکل آیا ہے
بات پہلی سی نسیم اب کے نہیں ہے مجھ میں
وقت کا دوسرا کردار نکل آیا ہے




