غزل
غزل / ایسی حالت ہے کہ اب زخم سے گھن آتی ہے / منیر جعفری
غزل
ایسی حالت ہے کہ اب زخم سے گھن آتی ہے
پھر بھی اس شخص کی خواہش مجھے بہکاتی ہے
داستاں گو! یہ تری اپنی کہانی تو نہیں؟
تیری آواز میں تصویر سی بن جاتی ہے
حاشیے پر مجھے رکھتا ہے ترقی کا سماج
میری پہچان کا عنوان مضافاتی ہے
اپنی عریانی بچاتے ہوئے رہ جاتا ہوں
ایسی پوشاک مجھے زندگی پہناتی ہے
کتنے پھولوں کو بچا لوں گا میں اس بارش سے؟
میرے ہاتھوں میں فقط ایک ہی برساتی ہے
سانس کا توڑ کسی غم کا مداوا تو نہیں
خود کشی روز مجھے بیٹھ کے سمجھاتی ہے
دور تک پھیلتا جاتا ہے تصادم کا غبار
جب بھی تاریخ برے فرد سے ٹکراتی ہے
کیسے پیچیدہ زمانے سے ملاقات ہوئی؟
شہر کا شہر ترے بارے سوالاتی ہے
قہقہہ کھینچ کے سینے سے نکالا تو کھلا
روز اک سسکی ترے ہجر کو سہلاتی ہے
مجھ سے پوچھا ہے توجہ کے ستارے نے منیر
رونقِ شہر تجھے یاد نہیں آتی ہے؟




