
زبیر نے اس ناگہانی افتاد سے بچنے کے لیے گاڑی کی بریک پر اپنے پاوں کی مدد سے بدن کی پوری طاقت صرف کر دی۔ گاڑی لہراتی بل کھاتی ٹائروں کے چرمرانے کی خوفناک آواز کے ساتھ سڑک کے ایک طرف آڑی ترچھی ہو کر رک گئی۔ ٹائروں کے سڑک پر گھسیٹنے سے فضا میں ربر کی بو پھیل گئی۔ اگر زبیر مکمل بریک نہ لگاتا تو گاڑی کے اچانک سامنے آنے والی لڑکی کے پرخچے اڑ چکے ہوتے۔یہ تو شکر ہوا کہ سامنے سے اس وقت کوئی گاڑی نہیں آ رہی تھی ورنہ ایک زوردار تصادم ناگزیر تھا۔ زبیر کا دماغ بری طرح الجھ گیا کہ کیوں وہ لڑکی یکدم چھلانگ لگا کر اس کی گاڑی کے سامنے آ گئی۔اس پر مستزاد وہ آڑی ترچھی کھڑی کار کی طرف بے صبری کے ساتھ لپکی اور سرعت سے دروازہ کھول کر اگلی نشست پر کو د کر یوں بیٹھ گئی جیسے وہ ہالی وڈ کی کسی فلم میں ایکشن سے بھرپور کوئی کردار ادا کر رہی ہو۔ اس نے گاڑی کا دروازہ زور سے بند کیا اور تحکمانہ لہجے میں زبیر کو مخاطب کیا، ” کب سے انتظار کر رہی ہوں، مجھے پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے”۔ لڑکی نے زبیر کی حیرت کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے گاڑی چلانے کا اشارہ کیا۔زبیر لڑکی کے پراسرار انداز پر طیش میں تھا مگر اس کے پیچھے گاڑیوں کی قطار لمبی ہوتی جار رہی تھی اور لوگ راستہ لینے کے لیے ہارن بھی دینے لگے تھے۔ٹریفک کے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے زبیر نے بادلِ نخواستہ گاڑی سیدھی کی اور ایکسلریٹر پر اپنے پاوں کا دباو بڑھا دیا۔
دانت پر دانت جمائے زبیر نے دیکھا کہ وہ ایک میانہ قد، بیس سے بائیس برس کی دوشیزہ تھی جس کا گورا رنگ اس کی پیشانی اور ہاتھوں سے نمایاں تھا کیونکہ اس نے حجاب لیا ہوا تھا اور وہ سراپا کالے رنگ کی عبایا میں ڈھکی ہوئی تھی۔عبایا کی چمکیلی کالی رنگت نے اس کے سرخی مائل سفید ہاتھوں اور پیشانی کے حسن کو دوبالا کر دیا تھا، رہی سہی کسر بڑی کالی آنکھوں نے پوری کر دی تھی جن پر لامبی لامبی پلکیں بار بار نچھاور ہو رہی تھیں۔ اس کے جسمانی خدوخال سے مترشح تھا کہ نہ تو وہ اس قدر دبلی پتلی تھی کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہو اور نہ ہی اس قدر فربہ کہ گاڑی کی نشست اس کے لیے کم پڑ جائے۔ وہ ان دونوں انتہاوں کے مابین متناسب جسامت اور اعضاء کی حامل لڑکی تھی۔ زبیر نے مناسب جگہ نظر آتے ہی گاڑی کی رفتار دھیمی کرنے کی کوشش کی کہ وہ کہیں رک کر لڑکی سے پوچھ گچھ کر سکے لیکن جیسے ہی لڑکی کو یہ احساس ہوا کہ زبیر کا ارادہ گاڑی روکنے کا ہے اس نے ہسٹریائی انداز میں اپنی انگلی سے زبیر کو ایسے اشارہ کیا جیسے وہ اس کی کنپٹی پر پستول رکھ رہی ہو ” میرے پاس وقت بے حد کم ہے اور ہاں اب زیادہ بھولے مت بننا کہ تمہیں پتہ نہیں میں نے کہاں جانا ہے”۔ لڑکی کے طرز تکلم پر زبیر کا دماغ غصے سے چکرانے لگا۔ اس نے مشتعل ہوکر کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ لڑکی کی زبان پھر سے چلنے لگی اور تنبیہ کرتے ہوئے بلاتوقف بولی، "دیکھو، میں صاف بتا رہی ہوں کہ جی پی او چوک سے بائیں طرف بینک روڈ کے آخر پر سٹی سنٹر کے ساتھ ہی میری یونیورسٹی کا کیمپس ہے۔ پرچہ شروع ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا ہے اس لیے مجھے جلد از جلد وہاں پہنچادو”۔
"میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتی کیونکہ ہمارے جیسے گھرانوں کی لڑکیاں فضول بولنے اور خصوصاً اجنبی لوگوں سے بات چیت میں ازحد احتیاط برتتی ہیں ” لڑکی شاید زبیر کو بولنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ "یہ تو انتہائی مجبوری تھی کہ مجھے تنہا گھر سے نکلنا پڑا وگرنہ ہم تو گھر کے کسی مرد کے بغیر باہر آنے کے سوچنے تک کے روادار نہیں ہیں ” گاڑی سے زیادہ رفتار اس کی زبان کی معلوم ہو رہی تھی۔ زبیر نے استعجاب سے لڑکی کی طرف دیکھا اور اپنے تنے ہوئے اعصاب کو پرسکون کرنے کے لیے ایک گہری سانس لی۔ وہ خود بھی اسی یونیورسٹی کے کیمپس میں پرچہ دینے جا رہا تھا۔
یونیورسٹی کیمپس نزدیک آ گیا۔ ” اب میں یہ تو کرنے سے رہی کہ پرچہ دے کر آوں تو پھر سے رائیڈ بک کروا کر انتظار کی سولی پر لٹک جاوں اور اتنے بہت سے مردوں میں انتظار کرنا یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی معصوم بھیڑ، بھیڑیوں کے نرغے میں آگئی ہو۔ اس لیے تم میرا یہیں انتظار کرو میں پرچہ دے کر آتی ہوں ” گاڑی رکتے ہی اس نے عجلت میں دروازہ کھولا اور زبیر کو ہدایات دیتے ہوئے اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر کیمپس کے اندر جانے لگی لیکن فوراً ہی پلٹ آئی اور گاڑی کے ادھ کھلے شیشے کے قریب منہ لا کر اونچی آواز میں بولی، ” گھبرانا مت میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں، واپسی پر تمہیں کرایہ دے دوں گی”۔ اس سے پہلے کے زبیر کچھ کہہ پاتا وہ تیز قدموں سے کیمپس کی طرف چل پڑی۔زبیر کا غصہ اب شدت تقریباً کھو چکا تھا اس لیے لڑکی کی بات سن پر وہ زیرِ لب مسکرانے لگا۔ اب اس نے اس ساری صورتحال اور گاڑی میں لڑکی کی گذشتہ رفاقت کا سوچ کر حظ اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ البتہ لڑکی کے جاتے ہی کار کے اندر سناٹا چھا گیا مگر زبیر کے دماغ کے کسی کونے میں یہ بات مچل رہی تھی کہ یہ خاموشی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
زبیر کے لیے پرچہ نسبتاً آسان تھااور وہ اسے اپنے مقررہ وقت سے پندرہ منٹ قبل ہی حل کر کے امتحانی مرکز سے باہر آ گیا۔ پارکنگ سے اپنی کار نکالی اور لڑکی کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا کہ سامنے سے وہ بے صبری کے ساتھ ہاتھ لہراتے ہوئے زبیر کی طرف چلی آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کچھ بڑبڑا بھی رہی تھی۔ لڑکی نے بھاگم بھاگ سڑک عبور کی۔فٹافٹ گاڑی کا دروازہ کھولا۔ زوردارکھٹاک کے ساتھ دروازہ بند کیا اور اگلی نشست پر براجمان ہو گئی، "اف کتنا لمبا پرچہ تھا میں تو بمشکل ہی مقررہ وقت تک ختم کر پائی اور بھاگ نکلی”لڑکی کو اس بات کی چنداں پرواہ نہیں تھی کہ زبیر کیا محسوس کر رہا تھا۔ اس کو تو بس بولنا تھا۔۔۔۔مخاطب کو موقع دیئے بغیر۔گاڑی کا سپیڈو میٹر بھی اس کی باتوں کی رفتار ماپنے سے قاصر تھا۔”اب میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو، چلو بھی”، اس نے اپنے گورے ہاتھ سے آگے کی طرف اشارہ کیا اور زبیر نے ایک فرمانبردار ڈرائیور کی پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ کار آگے کی طرف بڑھا دی۔
” میرے گھروالے مجھ پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کر تے ہیں اسی لیے میں اِدھر اُدھر وقت ضائع کرنے کی بجائے فوراً گھر جانا چاہتی ہوں ” اس کو شاید یکطرفہ گفتگو میں ملکہ حاصل تھا۔ ” میری امی مجھے ہمیشہ یہی کہتی ہیں کہ عائشہ کبھی کسی پر بھروسہ نہ کرنا اور مجھے فخر ہے کہ میں نے کبھی کیسی اجنبی سے کوئی بات نہیں کی” یہ بات کرتے ہوئے اس کی آواز و انداز میں غیر محسوس سا گھمنڈ تھا۔ ” اچھا تو محترمہ کا نام عائشہ ہے” زبیر ہونٹ بھینچے سوچ رہا تھا۔ ” ارے یہ کیا! اتنی ٹریفک بلاک ہے اور اوپر سے مجھے بھوک بھی شدید لگ رہی ہے” پریشانی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے عائشہ کا انداز خود کلامی کا تھا مگر اس کی آواز خاصی بلند تھی۔زبیر نے تھوڑا آگے جا کر ایک مناسب کیفے ٹیریا کے سامنے گاڑی روکی اور کچھ ہلکے پھلکے کھانے کا آرڈر دیا۔ کھانے کی چیزیں آنے تک عائشہ بے اعتنائی سے بیٹھی رہی۔ دو عدد برگر، کچھ فرنچ فرائز اور کولڈ ڈرنک کے دو گلاس ویٹر نے زبیر کی طرف والی کھڑکی سے اس کو ایک ٹرے کے ذریعے پکڑائے۔ زبیر نے ٹرے عائشہ کی طرف بڑھا کر بل کی ادائیگی کی اور بقیہ رقم لے کر گاڑی ریورس کرنی شروع کی ہی تھی کہ عائشہ جیسے نیند سے جاگ گئی، "ارے مسٹر، دیکھو میں کسی کا کوئی احسان نہیں لیتی اس لیے میں اس کھانے کے بھی پیسے دوں گی” اس دوران عائشہ ندیدوں کی طرح برگر کھائے چلے جارہی تھی اور کولڈ ڈرنک کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھی لے رہی تھی۔ کھانے سے پیشتر اس نے جھٹ سے اپنا نقاب اتار کر اپنا خوبصورت بیضوی چہرہ کھول دیا۔آنکھوں میں لگا کاجل اور گالوں پر ہلکی لالی نے اس کو خاصا جاذب نظر بنا دیا تھا۔ ” تمہیں پتہ ہے کہ اس بات کا کیا مطلب ہے اگر مجھ جیسی لڑکی تم جیسے کسی لڑکے سے کچھ قبول کرے؟” برگر سے بھرے منہ سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔ اس سے پہلے کہ زبیر کچھ بولتا، عائشہ دوبارہ گویا ہوئی، ” تم مجھ سے توقع کرو گے کہ میں بدلے میں تمہاری کوئی نا جائز بات مان لوں "۔۔۔ عائشہ نے بلا ہچکچاہٹ اپنے سوال کا خود ہی جواب دے دیا۔ اب زبیر ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس طرح برگر کھا رہا تھا کہ جیسے وہ بہرا ہو اور اسے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آس پاس کوئی کیا کہہ رہا ہے "۔ یہ زندگی مجھ جیسی لڑکی کے لیے بہت مشکل ہے جو سیدھی راہ پر گمراہ ہوئے بغیر چلنا چاہتی ہے” عائشہ نے لمبی سانس لے کر گویا فلسفیانہ انداز میں بات کرنے کی کوشش کی۔ ” امی ہمیشہ میرے بلا ضرورت بات نہ کرنے کی بہت تعریف کرتی ہیں "۔۔۔ عائشہ نے اپنے بھرے بھرے تیز سرخ رنگ کی لپ اسٹک سے سجے ہونٹوں کے گرد ٹشو پیپر سے صفائی کرتے ہوئے کہا۔ یہ بات سن کر زبیر کو ایک جھٹکا لگا اور اس نے بمشکل اپنی ہنسی روکی۔ زبیر کے تاثرات کی پرواہ کیے بغیر عائشہ اپنے بارے میں رطب اللسان رہی۔۔۔” میرے گھروالے پردے کے معاملے میں بہت سخت ہیں اسی لیے ہم لڑکیوں کو بہت کم عمری سے ہی حجاب لینا سیکھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے آج تک کسی اجنبی کے سامنے اپنا چہرہ بے نقاب نہیں کیا”۔۔۔۔اب تو زبیر نے بلند آواز سے ہنسنا شروع کر دیا مگر حیرت انگیز طور پر عائشہ کو بالکل خجالت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ ”
اوہو، میرا ڈراپ پوائنٹ آ گیا، بتاو میں نے کتنا کرایہ دینا ہے؟”۔۔۔ عائشہ نے جلدی سے اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے فوراً چہرے پر نقاب درست کیا اور عبایا کی نک سک درست کرنے لگی جو اس کے بدن کے ساتھ اس طرح چپکا ہوا تھا جیسے وہ اس کی دوسری جلد ہو۔ ” اگر تمہارا اگلا پرچہ دو دن کے بعد انہی اوقات میں ہے تو میں تم کو اسی مقام سے ساتھ لے کر جا سکتا ہوں "۔۔۔۔زبیر نے اس سارے عرصے میں پہلی دفعہ بات کرنے کے لیے منہ کھولا۔ عائشہ چند ثانیے تک اسے خالی نظروں سے تکتی رہی اور پھر اچانک اونچی آواز میں ہنسنے لگی۔۔۔” تم جیسے لوگ ہمیشہ مجھ جیسی لڑکیوں کو تنہا پا کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ میں ان چکروں میں نہیں آنے والی”۔۔۔اس دوران اس نے اپنے بیگ میں موجود ایک رجسٹر سے ایک ورق کو جلدی سے پھاڑا اور پن سے اس پر کچھ لکھنے لگی۔ اترتے ہوئے عائشہ نے کاغذ کا وہ ٹکڑامٹھی میں مروڑ کر زبیر کی گود میں پھینک دیا اور اسی تیزی سے کار سے باہر جا نکلی جس تیزی سے وہ کچھ گھنٹے قبل بیٹھی تھی۔اس دوران وہ فرنچ فرائز کا لفافہ اٹھانا نہ بھولی تھی۔زبیر اس کو جاتا ہوا دیکھنے لگا اور جلد ہی اس نے کاغذ کا وہ مڑا تڑا ٹکڑا اٹھا کر کھولا تو اس پر عائشہ نے ایک فون نمبر لکھا تھا۔
کار میں یکدم در آنے والا گھمبیر سناٹا کسی بیوہ کی اجڑی مانگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ یہ سکوت آنے والے کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھا جس کا ابال زبیرکے سائیں سائیں کرتے دل و دماغ میں ہلچل مچانا شروع کر چکا تھا۔
*عارفین یوسف*
20اکتوبر2025





تجزیہ "عجلت” از عارفین یوسف۔
یہ افسانہ روزمرہ کے ایک بالکل واقعاتی اور معمولی سے واقعے کے اندر کرداروں کی نفسیات، سماجی رویے اور تہذیبی منافقت کو نہایت باریک طنزیہ پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ تحریر کی سب سے بڑی خوبی ردّ و قبول کے مسلسل تناؤ میں چلنے والی ڈائنامک گفتگو ہے—جہاں ایک طرف عائشہ کا خودساختہ وقار اور اخلاقی برتری کا تاثر ہے، دوسری طرف زبیر کا خاموش، مشاہداتی اور اندر سے چڑچڑا ردِعمل۔
زیرِ نظر افسانے کو اگر ایک کسک کہا جاۓ تو غلط نہ ہو گا یہ جہاں بظاہر ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ظاہر و باطن کی منافقت اور عزت و غیرت کی جھوٹی چادروں کو تار تار کرتا نظر آتا ہے وہاں درحقیقت ہمارے معاشرے میں عورت کی مجبوریوں، عدم تحفظ کے احساس اور اس کی خاطر مذہب، ذاتیات، اکتسابی مہارتوں اور ہر دستیاب چیز کو استعمال کر کے خود کو محفوظ اور رواں دواں رکھنے کی مجبوری اور اس مجبوری کے اندر ایک کسک چھپی ہوئی ملتی ہے۔ ہماری ہیروئن ایک جھوٹی اور ظاہری شخصیت کے پردے میں اپنی سچی اور حقیقی نسوانی کمزوری محض اس لئے چھپا رہی ہے کہ وہ "معصوم بھیڑ ہے جو بھیڑیوں میں گھری ہوئی ہے”. یہ چیز ہمارے لئے شرمندگی کا باعث ہے کہ عورت کو بچنے کیلئے جھوٹی بہادری، جھوٹی شان و شوکت، جھوٹے اعتماد اور جھوٹی مذہبیت کا سہارا لینا پڑتا ہے تا کہ اس کی روزمرّہ زندگی سہل ہو سکے۔
دوسری طرف یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ معاشرے میں ہر طرف بھیڑئیے ہی نہیں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جو خواتین کی مجبوریوں کو نہ صرف سمجھ جاتے ہیں بلکہ ان پر اپنی طاقت بھی نہیں آزماتے الٹا ان کو برداشت کرتے اور عزت و احترام دیتے اور تعاون بھی کرتے ہیں۔ ہمارا ہیرو انہی لوگوں میں سے ہے جن کی موجودگی میں کوئی غیر عورت بھی خود کو محفوظ تصور کر سکتی ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ہیرو کی طرف سے دکھایا گیا ادب و احترام، تعاون، صبر و تحمل اور عزت ہماری ہیروئن کا دل جیت لیتا ہے۔ بانو قدسیہ نے کہا تھا کہ "متوسط گھرانوں کی لڑکیاں محبوب نہیں بلکہ شوہر تلاش کرتی ہیں۔۔۔” یعنی عورت کو جہاں عزت و احترام، تعاون اور اچھا رویہ نظر آۓ وہاں اس کی خود اعتمادی نہ صرف لوٹ آتی ہے بلکہ وہ اپنا ظاہری خول بھی اتار کر ایک حقیقی محبت کرنے والی عورت بن جاتی ہے۔
بہت اچھا افسانہ ہے ڈائیلاگ متحرک اور حقیقی لگتے ہیں پورا منظر نامہ حقیقی لگتا ہے۔