اُردو ادباُردو شاعرینظم

راولپنڈی / فرخ یار

راولپنڈی

 

بدن کے مضافات کو 

بے قراری کی بیلوں نے گھیرا ہوا تھا 

جنم پھیر کی خود کلامی کے اندر 

ہمہ وقت بے چین آنکھوں میں مستی کا سرمہ لگا تو 

عراقِ عجم کے پلوں سے گزر کر 

دمشق اور کوفہ کی خونی دلیلوں ، سبیلوں سے بچتا بچاتا 

زمانوں کی دوری پہ دریا کے اس پار آباد 

باغوں بھرے شہر کی سیڑھیوں پر 

دمکتے ہوئے نقش کو بند کرتے کئی سال سے اب 

خراسان کے دستکاروں کی شوریٰ میں بیٹھا ہوا ہوں 

‍‍

سواروں کے جتھے 

اترتے گزرتے چلے جا رہے ہیں

سواروں کی شکلوں پہ شب کی لکیریں 

ملامت کی کالی سیاہ چادریں اوڑھ کر ان کا ہونا 

کسی ناگہانی میں بھٹکا ہوا ہے 

ہوا رک گئی ہے مگر میرا دل جیسے 

راول کی پنڈی میں اٹکا ہوا ہے 

وہ راول کی پنڈی 

جسے خلق نے گرد اور خشک جاڑے سے نکلی ہوئی 

دھند کی پیچ تالی میں دیکھا 

کہاں سب کو ملنا تھی پلکوں کی چھایا 

کہاں سب پہ کھلنا تھا کار _تمنا 

محلوں ، فصیلوں ، دکانوں کے پہلو میں بہتے زمانوں کے اندر ، 

لرزتی دھڑکتی ہوئی زندگی آخری متن تک 

خط کشیدہ عبارت میں لکھی ہوئی تھی 

 

وہ راول کی پنڈی کہ جس میں 

زمیں کو بدلنے کا سپنا سناتے ہوئے قصہ خواں 

موسموں کی نہایت سے بچ کر 

پرانے مکانوں کی جانب پلٹتے رہے 

اور اب نارسائی کے مجہول کونوں میں ان 

قصہ خوانوں کو نیند آ گئی ہے 

مرادوں کی بھٹی سے اس سال بھی 

اپنی مرضی کے چاند اور ستارے نہیں ڈھل سکیں گے 

خبر بھیڑ کو چیرتی جا رہی ہے 

سخن خشک سالی کی شاخوں سے لٹکا ہوا ہے 

مگر میرا دل …..

Author

  • توحید زیب

    روحِ عصر کا شاعر ، جدید نظم نگار ، نظم و غزل میں بے ساختگی کے لیے مشہور

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x