اُردو ادبتبصرہ کتب

تبصرہ کتاب راز ہستی / عارفین یوسف

تبصرہ کتاب: رازِ ہستی
مصنفہ: زرقا فاطمہ

ادب اپنے اندر ایسی آفاقیت سموئے ہوئے ہے جس میں ایک لامتناہی کائنات پنپ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کائناتِ ادب بھی ناتما م ہے شاید۔۔۔۔ "کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون”۔ ابتدائے آفرینش سے ہست و بود کے سربستہ راز طشت از بام کرنے کے لیے سائنس اپنی قطعیت، مذہب اپنی جذباتیت، روحانیت اپنی پراسراریت، فلسفہ اپنی موشگافیت اور تصوف اپنی رہبانیت کو بروئے کار لا کر سرگرمِ عمل ہے۔دوسری طرف کارزارِ ادب کے شہ سوار ان رازِ ہائے ہستی کو پرت در پرت افشاں کرنے کے لیے زندگی کے ساتھ مختلف محاذوں پر نبرد آزما ہیں۔ نہایت قابلِ احترام لکھاری زرقا فاطمہ کے تنومند کہانیوں سے لبریز افسانوں کی کتاب ” رازِ ہستی” انسانی شخصیت کے کھوج کی ایک ایسی لازوال کڑی ہے جو قاری کو خود شناسی کی راہ پر گامزن کر دیتی ہے۔ کتاب کے سرورق پر اس تلاش کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے جہاں متجسس آنکھوں کے سحر میں جکڑے ہوئے نقشِ پا پراسرار رہگزر سے ہوتے ہوئے ایک انجان منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ گرامی قدر خالد شریف صاحب اور واجب الاحترام علمی گھرانے کی ممتاز چشم و چراغ نیلم احمد بشیر صاحبہ کے الفاظ گواہ ہیں کہ رازِ ہستی جیسا جان جوکھوں کا عمل زرقا فاطمہ نے کس قدر جانفشانی سے سرانجام دیا ہے۔ منفرد انتساب "ہرقسم کا رزق دینے والے اللہ کے نام” اس امر کا غماز ہے کہ رزق صرف وہ ہی نہیں جس کولذتِ کام و دہن میں لا یا جا سکے۔بلاشبہ زرقا صاحبہ کو قلم کا رزق وافر مقدار میں نصیب ہوا ہے جس کا ان کے افسانوں میں برملا اظہار بھی ملتا ہے۔ عمیق مشاہدے اور دوررس تجزیہ کے حامل ان افسانوں کے کرداروں کی ہستی میں پنہاں متنوع خوبیوں اور خامیوں کو بطریقِ احسن اجاگر کیا گیا ہے۔ اگرچہ ایک کے سوا تمام افسانوں میں مرکزی کردار کے سنگھاسن پر صنفِ نازک کو ہی بٹھایا گیا ہے مگر جاندار اندازِ بنت، پیچیدگی سے پاک علامات، برمحل تشبیہات اور استعارات سے مزین ان تحاریر میں قاری ان کرداروں کو صنف سے ماورا ہو کر ایک لازمی معاشرتی اکائی کے پسِ منظر میں دیکھتا ہے اور ان کرداروں کی تلاطم خیز، شور مچاتی، ہیجان انگیز زندگیوں کے ساتھ ہچکولے کھاتا ہوا بالاخرآگاہی کے بظاہر پرسکون بحرِ بے کراں سے ہمکنار ہو جاتاہے جبکہ لاشعوری طور پر وہ ان کرداروں کے غم میں مکمل طور پر ڈوب چکا ہوتا ہے۔

زرقا فاطمہ کی ان تحاریر کی ایک ان مول خوبی بے جا منظر کشی سے گریز ہے جو اس لیے بھی لائقِ تحسین ہے کیوں کہ کرداروں کی بول چال،ان کی نفسیاتی گرہوں اور ذہنی کشمکش کی اس عمدگی کے ساتھ عکاسی کی گئی ہے کہ قاری خود کو ایک خود کار اور تنویمی عمل کے زیرِ اثر اُس فسوں خیز ماحول میں محسوس کرتا ہے جس ماحول میں کوئی کردار سانس لیتا ہے۔ان جاندار کرداروں کے ہوتے ہوئے مصنفہ کو ماحول طاری کرنے کے لیے کسی مصنوعی عمل کا سہارا نہیں لینا پڑا۔ بقول محترم خالد شریف ” ہر کہانی میں اُسی ماحول کی زبان و بیان کا استعمال لطف انگیز ہے”۔افسانوں کی اکثریت کے نام ہی خود میں پورا ماحول سموئے ہیں۔ پہلا افسانہ "رڑک” مضبوط بیانیہ سے آراستہ ہے۔۔۔ "پُتر تو نہیں جانتی خواب کی رڑک بہت بُری ہوتی ہے سکھ کی نیند سونے نہیں دیتی، میٹھی نیندیں روٹھ جاتی ہیں۔ تلاش مقدر بن جاتی ہے”۔ رڑک کا اس سے بہتر رمزیہ انداز پہلے کبھی سننے یا پڑھنے میں نہیں آیا۔

"رازِ ہستی ” میں ہمیں سقوط ڈھاکہ کی گہری چھا پ دکھائی دیتی ہے اور اس المیہ کا اظہار سیاست کی مکارانہ اور پرپیچ راہوں سے گریز کرتے ہوئے عام آدمی اور جیتے جاگتے کرداروں کے ذریعے انتہائی موثر انداز میں کیا گیا ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ دوسرا بڑا چرکہ تھا جس کا بے حد دردمندی اور حساسیت کے ساتھ ابلاغ کیا گیا ہے۔ نارسائی کے دکھ اور لاحاصل کی تڑپ کو مشرقی پاکستان کے سانحہ کے تناظر میں اجاگر کرنا اگرچہ پُل صراط سے گذرنے کے مترادف ہے مگر اس جاں گسل درد کی خلیج کو قلم کے ذریعے پاٹتے ہوئے مصنفہ نے نہ صرف اپنا حوصلہ مجتمع رکھا بلکہ قاری کو بھی آگ اور خون کا یہ دریا یوں عبور کرایا کہ ان درد انگیز دنوں کی کسک روح میں سرایت کر گئی۔

انتظار کی پُر خار راہ کو تکتی شربتی آنکھوں والی باوی، اٹل ارادے پر ڈٹی رانی، پیار میں بیوپار کے خلاف مصروفِ جدوجہد چندی، بلاتکلف دندناتی ہوئی بانکڑی، ذہین و فطین شہزادی، عفو و درگزر کا پیکر رباب، شاہانہ جاہ و جلال والی خدمت گار ملکہ، دردمند ماریہ، مشکلات کے سامنے سسیہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی خالدہ، وچھوڑے کا عذاب سہتی سکھیاں رحیماں اور راکھی، ریا کاری کی سیج پر سج سج کر اکتائی ہوئی نوبیاہتا فرزانہ، وطن کی محبت سے سرشار عارفہ، کینہ پرور محبت کو قبول کرنے والی فریدہ، کولہو کے بیل کی طرح گھر کے رہٹ سے جُتی پروین، الہڑ خوابوں کی اسیر شمائلہ اور اُس کے لیے اپنے ارمانوں کا خون کرنے والی رقیہ، صنف آہن نور بانو، مجرم مجازی خدا سے باغی بکھی،تمام تر دباو کے باوجود راست بازی پر قائم رہنے کے عزمِ صمیم کی حامل بخت آور، بساطِ سیاست پر مات کھائے مہروں کی طرح یاسمین اور سلمی۔۔۔۔۔اور ان تمام طاقتور نسوانی کرداروں کے جھرمٹ میں پوری آن بان اور شان سے تن کر کھڑا "عشقِ رمیدہ” کا راحیل ورق در ورق ایسی لازوال داستانوں کے امین ہیں جنھوں نے رازِ ہائے ہستی کے پوشیدہ اسراروں سے پردہ اٹھایا جن کو ضبط تحریر اور انسانی بصیرت کے احاطہ میں لانا جوئے شِیر لانے سے بھی زیادہ کٹھن کام ہے۔محترمہ نیلم احمد بشیر کا یہ کہنا بالکل بجا ہے "یہ کردار اصلی ہیں اور یہی لکھنے والے کا ہنر ہوتا ہے کہ وہ اصلی کرداروں سے کہانیوں کے جال بنتا اور اپنے قاری کو اس میں شامل کرتا ہے”۔ زرقا فاطمہ صاحبہ کا شکریہ کہ انہوں نے انسان کی ہستی کے چھپے گوشوں سے قاری کو ایک ماہرِ نفسیات جیسی چابکدستی کے ساتھ روشناس کرایا۔

پیشِ لفظ میں مصنفہ رقم طراز ہیں "یہ میری پہلی کتا ب ہے، میں نے کوشش کی ہے کہ زندگی کی کچھ سچائیاں بیان کر سکوں۔ ہوسکتا ہے آپ کو اس میں جراتِ رندانہ نہ ملے مگر کچھ باتیں شاید رکنے پر مجبور کر دیں "۔ اس سلسلے میں عرض یہ کرنا ہے کہ آپ اس کوشش میں صد فیصد کامیاب رہیں۔ قاری اس کتاب کے مطالعہ کے دوران نہ صرف قدم قدم پر رکتا ہے، حیران ہوتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے بلکہ سر دھنتا ہے۔ ہم آپ کی اگلی کتاب کے منتظر ہیں۔

Author

0 0 votes
Article Rating
1 Comment
Inline Feedbacks
View all comments
بنت قمر مفتی
بنت قمر مفتی
2 months ago

زرقا فاطمی صاحبہ نے اپنی کتاب بعنوان راز ہستی میں ، عورت کی ہستی کے مختلف پہلوؤں پر بہت خوبصورتی سے لکھا ہے۔
عارفین یوسف صاحب نے بہترین تبصرے کیا

Related Articles

Back to top button