اُردو ادبتبصرہ کتب

تبصرہ کتاب : ع سے مرد / رانا سرفراز احمد

‎ تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا
‎کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر

‎”ع سے عامر صاحب” کی کتاب "ع سے مرد” کے سر ورق کے متعلق کچھ لکھنا چاہ رہا تھا بس وقت کو مینیج کرنا مشکل ہو رہا تھا تو آج وقت ملا تو جسارت کر دی۔ میں نے جب غور کیا تو سرورق ایک جہانِ معانی نظر آیا جس پر حرف ” ع” جلی حروف میں لکھا ہے اور مرد کا چہرہ "ع” کے دائرے میں مقید نظر آیا۔

اب "ع” سے عورت، عشق، عہد، عبادت، عزت، عذاب، یا شاید پھر "عشق کی عین۔۔۔” تو گویا یہ ایک جہانِ معانی ہوا۔ اب اس کو جس ” ع” پر بھی منطبق کر لیں اپنے مزاج اور آپنی طبیعت کے مطابق۔ یہ اپنی تصویر کے مطابق مرد کی داخلی کیفیات اور اس کی خارجی شخصیت اور  معاشرتی کردار کا احاطہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ "م”  کی ظاہری و باطنی شخصیت "ع” کے احاطے میں ہے اور "ع” کے اندر کا خالی پن "م” سے ہی بھرپور ہے دونوں کی تکمیل ایک دوسرے سے ہی ممکن ہے۔

‎اب ذرا تصویر پر آ جائیں تو مرد کی آنکھ کے گرد ایک "عینیہ” یعنی "ع” کے نسوانی ہاتھ کا دائرہ بنا ہوا ہے جس کی دو انگلیوں نے "م” کی "ع” کو احاطے میں لیا ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ "م” دنیا کو "ع” کی حدود میں ہی دیکھ سکتا ہے اسے کائنات میں ہر سمت "ع” ہی نظر آتی ہے اور وہ اس کی حدود اور دائرے سے نکل کر نہیں دیکھ سکتا اس کا سارا جہان عین "ع” ہے اس سے اگر آگے نکلا تو "غ سے غلط” ہو جاۓ گا۔ اب اگر مزید گہرے کنویں میں چھلانگ لگائی جاۓ تویہ ہاتھ کہیں سماجی جبر، اندرونی خوف، گناہ کے احساس، طاقت یا کسی غیر مرئی دباؤ کی علامت بھی ہو سکتا ہے، جبکہ آنکھ کو قابو کرنے کا عمل سوچ اور حقیقت کے ادراک پر قبضے کی طرف اشارہ کرتا ہے، گویا "م” نہ صرف معاشرے کے دباؤ میں ہے بلکہ اپنے ہی ذہنی تضادات کا قیدی بھی ہے۔ چہرے کے تاثرات میں حیرت اور بے یقینی ہے، گویا وہ اپنے وجود اور شناخت کے سوالات میں الجھا ہوا ہے۔

‎تصویر کے پیچھے موجود تجریدی آرٹ کا نمونہ یعنی دو رنگ خاکی اور نارنجی رنگ اپنی الگ معانی کی دنیا بساۓ ہوۓ ہیں۔ خاکی رنگ اس خاک کے بنے ہوۓ خاکی پُتلے کو اپنا تعلق خاک سے جوڑ کر رکھنے کا اشارہ دیتا نظر آتا ہے۔ شاید اس لئے کہ افسانے اسی خاک سے وابستہ خاکی سر زمین پر رہنے والے لوگوں کے مسائل سے متعلق ہیں جن میں نارنجی رنگ زندگی کی حرارت پیدا کر رہا ہے۔

‎یوں یہ رنگ ایک طرف جہاں زندگی اور حرارت کا احساس دیتے ہیں تو دوسری طرف تھکن اور اداسی کی نمی بھی رکھتے ہیں، جو کتاب کے افسانوں کے جذباتی تنوع کا پتہ دیتے ہیں۔ یوں پورا سرورق مجموعی طور پر یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ یہ محض افسانوں کا مجموعہ نہیں بلکہ مرد کی داخلی دنیا، اس کی ٹوٹ پھوٹ، خواہشات، معاشرتی ذمہ داریوں اور باطنی کشمکش کا فنکارانہ جائزہ ہے۔ سرورق قاری سے کوئی جواب نہیں مانگتا، بلکہ ایک ایسا سوال چھوڑتا ہے جو اسے پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔
‎ایک اور اہم نقطہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ہاتھ مرد کا بھی ہو سکتا ہے یعنی ہم یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ مرد نے اپنے زاویۂ نظر کو خود ہی مقید کر رکھا ہے یعنی جسے ہم معاشرتی جبر، ظلم، جکڑبندیوں اور خوف یا گرفت کا نام دے رہے ہیں وہ اس کا اپنا بھی یو سکتا ہے۔ یعنی مرد نے خود کو خود ہی ایک انجانی محدود نظری میں قید کر رکھا ہے یا پھر اس نے خود کو "ع” کی حدود میں مقید کر رکھا ہے، حالانکہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
‎الغرض عامر انور صاحب کی کتاب "ع سے مرد” ایک ایسا آئینہ ہے جس میں مرد اپنا عکس دیکھ سکتا ہے اور یہ آئینہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی حقیقتوں کا عکاس ہے۔

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x