
صالحہ بیگم کی جب شادی جالب صاحب سے ہوئی تو ان کی عمروں میں بیس سال کا فرق تھا۔ جالب صاحب پینتیس سال کے تھے جب کہ صالحہ بیگم پندرہ برس کی تھی۔
جالب صاحب کی یہ دوسری شادی تھی۔ پہلی شادی سات سال قائم رہی اور پھر ان کی بیگم آنا فانا ناگہانی بیماری کا شکار ہوئی اور جالب صاحب کے ہاتھوں میں دم دے دیا۔ ان کے لیے یہ نہایت جاں گسل صدمہ تھا۔ ان سات سالوں میں ان کی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ اس نعمت کے واسطے ان کی بہشتن بیگم نے کیا کیا جتن نہ کیے ۔
جالب صاحب کا خیال تھا کہ یہ صدمہ ہی ان کی جان لینے کا سبب بنا۔ انہوں نے تو اس سانحے کے بعد دیوداس کا روپ ہی دھار لیا تھا۔ بس مے نوشی سے دور رہے کہ صاحب کردار تھے۔
خاندان کے دیگر افراد نے سمجھانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی کہ دوبارہ گھر بسائیں تاکہ زندگی گزارنے کا مصرف میسر ہو ۔ لیکن جالب صاحب نے اس غم کو پانچ سال تک اپنے سینے سے لگائے رکھا۔
وہ شاید زندگی یونہی گزار دیتے لیکن ان کے رشتے کی خالہ کا ان کے گھر آنا ہوا۔ ان کے ساتھ ان کی کمسن لڑکی صالحہ ساتھ تھی۔ وہ فقیر والی میں بیاہ کر گئی تھی۔ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی ۔ کبھی دل میں پرانے رشتوں کی ہوک اٹھتی تو ملنے کے واسطے کراچی چلی آتی ۔ وہ ڈاک کے ذریعے اپنے آنے کی اطلاع ضرور بھیجتی۔
ان کی آؤ بھگت اچھے سے کی جاتی۔ کراچی شہر فقیر والی جیسے گاؤں میں رہنے والوں کے لیے کسی ولایت سے کیا کم تھا ۔ صالحہ بیگم اس وقت کم سن ضرور تھیں لیکن بلا کی ذہین ۔ اس ماحول کو دیکھ کر حیران ہوئی۔ کم عمری کی فطری شوخی کو کراچی کے موسم اور مناظر نے مزید جلا بخشی۔
جالب صاحب اپنی موٹر گاڑی میں لیے خالہ اور صالحہ کو لیے لیے کبھی قائد اعظم کے مزار لیے جاتے تو کبھی گارڈن کے چڑیا گھر۔ لیکن جب ساحل سمندر پر لے گئے تو صالحہ بیگم مبہوت ہو گئیں۔ وہ جالب صاحب کا ہاتھ پکڑ پکڑ کر سمندر کے پانی میں اترتی ۔ جالب صاحب اس کی شوخیوں اور شرارتوں سے لطف اندوز ہوتے اور مسکرانے لگے۔ ان کی خالہ جو ان کے دکھ سے واقف تھی تو جالب صاحب کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کو دیکھ کی جی اٹھی۔
پندرہ دن کیسے ہوا ہوئے معلوم ہی نہ ہوا۔ جانے کے دن قریب ہوں تو مل بیٹھنے کا وقت بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگلی صبح ٹرین سے واپسی کا پروگرام طے تھا تو اس رات پورے گھر میں خاندان کے لوگ جمع تھے۔ جالب صاحب کی بھاوج اور بہنیں بھی خوش تھیں کہ بیگم کے انتقال کے بعد پہلی مرتبہ وہ زندگی کی طرف لوٹتے محسوس ہوئے۔
ان کی خالہ نے بھی جالب صاحب کو بزرگانہ نصحیت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا جانے والوں کے ساتھ جایا نہیں جاتا۔ زندگی باقی ہے تو اسے جینا پڑتا ہے۔ بیٹا شادی کر کے نئی زندگی کا آغاز کرو۔ اس پورے قضیے میں صالحہ بیگم جو کراچی شہر کی رنگینیوں میں کھو سی گئی تھی اور جانے کے دم سے اداس تھی۔ وہ اچانک بولی کہ اماں میری شادی ان سے کروا دیجیے۔ انہوں نے ہمارا اچھے سے خیال بھی رکھا۔
وہ تو سچے من سے بول گئیں کہ شاید کراچی شہر سے نہ جانے کی خواہش نے غیر ارادی طور پر ان کے منہ سے یہ کہلوا دیا۔ لیکن محفل میں یک دم خاموشی سی چھا گئی۔ جالب صاحب جھینپ سے گئے۔ لیکن ان کی بھاوج اٹھی اور کمرے سے نکل گئی۔ وہ کمرہ جہاں قہقہے ، قصے اور کہانیاں گونج رہے تھے ، وہاں گہری خاموشی چھا گئی۔ صالحہ بیگم کو جلد احساس ہوا کہ وہ کچھ غلط کہ گئیں تو بچوں کی طرح اپنی ماں کے پلو میں منہ دے دیا۔
چند منٹ بعد جالب صاحب کی بھاوج آئی اور انہوں نے بکس میں بند انگوٹھی کھول کر سب کو دکھائی اور خالہ کو پکڑوا دی کہ واپس جا کر سب کی رائے معلوم کر لو۔ اگر اعتراض نہ ہو تو جالب کے نام کی انگوٹھی صالحہ کو پہنا دینا۔ جالب صاحب شرماتے ہوئے کمرے سے باہر چلے گئے اور کمرہ خوشی کے قہقہوں سے پھر سے گونج اٹھا۔
یوں صالحہ بیگم ، جالب صاحب کی دلہن بن کر کراچی شہر میں خاندانی حویلی میں آ بسیں۔ خدا نے ان کے دم سے جالب صاحب کو خوشیاں دینے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ سات سالہ رشتہ ازدواج میں منسلک رہنے کے باوجود اولاد سے محروم رہنے والے جالب صاحب شادی کے دوسرے سال میں ہی صاحب اولاد ہو گئے ۔
صالحہ بیگم کی کم عمری اور پھر اولاد کے ہونے نے انہیں جالب صاحب کی محبوبہ بنا دیا۔
وہ انہیں ہر ہفتے ساحل سمندر لے جاتے۔ ان کی خوشیوں میں پورا گھرانہ خوش تھا ۔ صالحہ بیگم تو جیسے ہواؤں میں اڑ رہی تھیں۔ رونق لگی رہتی۔ رشتے میں بڑی اور عمر میں چھوٹی ہونے کے سبب احترام اور پیار دونوں ہی ان کا مقدر ٹھہرے۔ یہ محفلیں ، یہ سنگت یونہی چل رہی تھیں۔۔۔
زمانے نے کروٹ بھری۔ جالب صاحب کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہو گئیں۔ باقی بہن بھائیوں کی اولادیں بڑی تھیں تو ان کی شادیاں ہوگئیں۔ پرانی حویلی جہاں سب مل جل کر رہ رہے تھے ، وہ کشائش کے لحاظ سے کم محسوس ہونے لگی اور پرانے طرز تعمیر نے بھی اب اسے جدید دور سے الگ سا کر دیا تھا۔
جالب صاحب مالدار تھے ۔ دیگر بہن ، بھائیوں کو احسن طریقے سے ان کا حصہ دیتے چلے گئے۔ ایسا انہوں نے صالحہ بیگم کی فرمائش پر کیا تھا۔ ان کو اس حویلی سے ایک عجیب سا لگاؤ تھا۔ وہ اپنی زندگی کے بیس برس گزار چکی تھیں۔ اس حویلی کو ڈھا کر اسے جدید تعمیراتی معیار کے مطابق تیار کیا گیا۔ لیکن جالب صاحب نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ صالحہ بیگم جس کمرے میں بیاہ کر آئی تھی ، اس کا نقشہ ویسا ہی رکھا گیا۔ مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر اس کی بالائی منزل کی پیشانی پر صالحہ منزل کندہ کروا دیا گیا۔
ڈھلنے والا سورج آہستہ آہستہ اپنے ساتھ بہت سی چیزیں لے جاتا ہے لیکن یہ سب غیر محسوس طریقے سے ہو رہا ہوتا۔ صالحہ بیگم ان تبدیلیوں کو بغور محسوس کرتیں۔ ابتدا میں گھر والوں کی بیٹھکوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن پھر سب کی مصروفیات نے اس سلسلے میں روک لگانا شروع کر دی۔
گھر کے مکین ہجرت کر گئے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہمسائے نہ بدلتے۔ اس گلی میں جہاں صالحہ منزل اب آباد تھا ، اس محلے میں ان کے علاوہ دو ہی گھر اور تھے جو یہاں کے پرانے رہائشی تھے۔ نئے آنے والوں سے وہ آشنائی پیدا نہ ہو سکی یا زمانے کے اطوار بدلے گئے ، جو بھی تھا صالحہ منزل پر اب وہ رونق نہ رہی جو اس کی پہچان تھی۔
اگر کچھ پرانا باقی رہ گیا تھا تو جالب صاحب کی محبت اور صالحہ بیگم کے کمرے کے خدو خال ۔ مزید وقت گزرا تو صالحہ بیگم کچھ خاموش رہنے لگیں۔ وہ گئے وقتوں کو یاد کرتیں اور ماضی سے جان نہ چھڑا پاتی۔ جالب صاحب بھی بڑھتی عمر کے ساتھ صحت کے مسائل کا شکار ہو رہے تھے ۔ ان کے بچے اب ان کا کاروبار سنبھالنے لگے تھے۔
بیٹیاں بھی جوانی کی دہلیز کو پہنچ چکی تھیں۔ جالب صاحب نے ان کے رشتوں کی تلاش شروع کی تو صالحہ بیگم تو گویا دیوانی سی ہوگئیں۔ کہنے لگی کہ جالب صاحب یہ بیاہی گئیں تو میں گھر بھر میں کیا کروں گی۔ میرا تو دم ہی نکل جائے گا۔ جالب صاحب معاملہ فہم تھے۔ انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی ایک سال کے وقفے سے کر دی۔ پہلے بہو آئی ۔ اس سے گھر میں رونق ہوئی تو پھر بیٹی بیاہی۔
یوں صالحہ بیگم کے مزاج کی داد رسی کی گئی۔ دوسرے بیٹے اور بیٹی کی شادی بھی اسی طرح کی گئی۔ بڑی بہو کو چھوٹی بہو کے آنے پر بالائی منزل میں رہنے کے لیے جگہ دے دی گئی۔ صالحہ بیگم نماز میں ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتی کہ ان کو جالب جیسا محبت کرنے والا خاوند نصیب ہوا۔ وہ ان کی لمبی عمر کی دعائیں مانگتی ۔ بیٹیاں کراچی شہر میں ہی بیاہی گئیں تو مہینے میں کبھی بڑی تو کبھی چھوٹی اپنے بچوں کو لیے چھٹی والے دن آ پہنچتی ۔
عید ، برات ، شب برات پر سب جمع ہوتے۔ خدا نے سب بچوں کو اولادیں عطا کی۔ تو گھر میں رونق لگی رہتی۔ جب بچے گھر میں مل کر کھیل رہے ہوتے اور ان کے بچے اپنی بیگمات کے ساتھ ان کے ساتھ بیٹھے گپ شپ کر رہے ہوتے تو وہ کہیں گہری سوچ میں ڈوب جاتی ۔ ان کو یہ خیال ستاتا کہ یہ سب بھی سدا نہیں رہنے والا ۔
جالب صاحب بھی ایک بھر پور زندگی گزار کر خدا کے حضور پیش ہو گئے۔ عمر کے فرق کی وجہ سے ان کی وفات پر صالحہ بیگم پچپن سال کی تھیں۔ ان کی صحت اچھی تھی تو زندگی میں انہیں خود کو سنبھالنا تھا۔ آخری دنوں میں انہوں نے جالب صاحب کی جو خدمت کی تو ایسا لگتا تھا کہ جو محبت انہیں ملی اب وہ اس کو منافع کے ساتھ واپس لوٹا رہی ہیں ۔ ان کے پہلو میں ہی جالب صاحب نے آخری سانس لی ۔
ان کی وفات پر خاندان جمع ہوا ۔ کافی دن تو صالحہ بیگم آنے والے مہمانوں میں مصروف رہیں۔ ہر وقت ان کی دل جوئی کے لیے کوئی نہ کوئی ان کے ساتھ ہوتا۔ لیکن آہستہ آہستہ سب اپنے اپنے گھروں میں لوٹ گئے ۔ ان کے بچوں اور بہوؤں نے بھی پوری کوشش کی انہیں تنہائی کا احساس نہ ہو ۔
لیکن صالحہ بیگم کو نجانے کیوں محسوس ہونے لگا کہ یہ سب جالب صاحب کے جانے کے بعد ان پر ترس کھانے لگے ہیں۔ ان کا بیٹھنا محبت کے بجائے فرض بن گیا ہے۔ کبھی بہو جاتے ہوئے اگر کہ دیتی کہ اماں کوئی کام ہو تو آواز دے دینا تو ان کو لگتا کہ یہ سب ان سے بلاوجہ کی ہمدردی کر رہے ہیں۔
اس سوچ کی وجہ سے وہ کچھ چڑچڑی سی رہنے لگیں۔ اب اگر بیٹا یا بہو حتیٰ کہ بیٹیاں بھی گھر آ کر کچھ کہتیں تو وہ بدمزہ سے ہونے لگتی۔ طبعیت میں اضطراب ہو تو زبان پر اس کا اثر نمایاں ہوتا ہے۔ زبان سے ادا کیے گئے الفاظ کا بہاؤ تلخ ہونے لگا اور سننے والوں کے کانوں کو بھی چبھنے لگا۔
بچے تھے تو ان کا معمول بھی اب پہلے وقتوں جیسا نہ تھا۔ کچی کلاس اور پکی کلاس کی جگہ کنڈر گارٹن نے لے لی تھی۔ ڈھائی سال کا بچہ اسکول جانے لگا۔ ماں کو جو گود بچے کو پانچ سال میسر آتی اب اسے نصف کر دیا گیا۔ اس کے بعد ٹویشن ، قاری صاحب کی کلاس۔ اور پھر ہوم ورک ۔ رات تک وہ اد موہے ہوئے ہوتے۔ بستر پر گر کر بے خبر سو جاتے۔
صالحہ بیگم کی یہ کیفیت دن بدن بڑھ رہی تھی۔ وہ خود سے بڑبڑانے لگتیں اور خود سے کہتی کہ میرے جالب صاحب کی محبت کتنی خالص تھی جب کہ یہ سب کتنے مصنوعی پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جیسے مجھے محبت اور بناوٹی ہمدردی کا فرق نظر نہ آتا ہو۔
رویہ درشت ہوا تو بہوؤں نے خاموشی سادھ لی۔ ویسے بھی وہ بچوں اور گھر داری میں مصروف رہنے لگیں۔ بیٹیاں بھی اب آتیں تو رات نہ رکتیں ۔ کاروبار سے ہونے والی آمدنی اب مسابقت کی وجہ سے کم ہو رہی تھی تو دوسری طرف مہنگائی عفریت بن کر سب کو نگل رہی تھی۔ اس وجہ سے بیٹے بھی اب بیٹھتے تو تھوڑی دیر میں جب ان کو احساس ہوتا کہ اماں کے مزاج سیدھے نہیں ہو رہے تو وہ بھی ماتھا ، ہاتھ چوم کر کمروں میں جا دبکتے۔
وہ گھر جہاں رونق ڈیرہ لگائے بیٹھی تھی اب اک انجان سے خاموشی اس کی پہچان بنتی جا رہی تھی ۔ صالحہ بیگم جب تک اس بات کو محسوس کرتیں ، گھر کے دیگر مکیں اس کے عادی ہوتے چلے گئے۔ اب صالحہ بیگم کا کمرہ تھا ۔ ان کا پلنگ ، تسبیح ، نماز یا بہت ہوتا تو اخبار یا رسالہ پڑھ لیتی۔
ان کی زندگی ہمیشہ مرکز نگاہ رہی تھی۔ عزت و احترام اور شوہر کی بے مثال محبت اور خاندان کے افراد کے ساتھ ان کی محفلوں نے ، ان کی زندگی میں ہزار رنگ بھر دئیے تھے۔ اب تنہائی انہیں کچوکے لگاتی تھی۔
ایک دن ان کی چھوٹی بہو ان کے کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھتی ہے کہ صالحہ بیگم بستر پر گری ہوئی ہیں۔ اس نے ایک زور دار چیخ ماری تو اوپری منزل سے بڑی بہو بھی بھاگی آئی ۔ اگلے چند گھنٹوں میں ڈاکٹر نے ان کا مکمل معائنہ کیا۔ تمام ضروری ٹیسٹ کیے گئے۔ تمام رپورٹس تسلی بخش تھیں۔ ڈاکٹر بھی حیران تھا کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ وہ بے ہوش ہو گئی ۔
اس نے چند طاقت کی ادویات اور وٹامنز لکھ کر دئیے اور تسلی دی کہ سب کچھ نارمل ہے۔ شاید گرمی یا کبھی خاص موقع پر بلڈ پریشر کی کمی سے بھی ایسا ہو جاتا ہے۔ صالحہ بیگم گھر آئیں تو سارا گھر ان کے ارد گرد بیٹھ گیا۔ دونوں بیٹیاں اپنے دامادوں کے ساتھ آ گئیں۔ ان کی دیوارانی اور نندیں بھی اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ آن پہنچی۔
صالحہ بیگم بڑے طمطراق کے ساتھ اپنے پلنگ پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔ عیادت کی سنجیدگی آہستہ آہستہ ماضی کی یادوں کے نقوش میں رنگ بھرنے لگیں۔ ہنسی مذاق سے محفل کشت و زعفران بن گئی۔ صالحہ بیگم کو اس محفل میں وہی رنگ نظر آنے لگے جس نے ان کی زندگی کو ہمیشہ خوشگوار رکھا۔
صالحہ بیگم جب تک حیات رہیں مہینے میں ایک محفل سجتی رہی۔ اگر اس میں سستی ہوتی تو پھر وہ بیمار ہو جاتی تھیں ۔ ڈاکٹر ہمیشہ حیران رہتا کہ رپورٹس ٹھیک آتی ہیں تو اماں کو آخر ہوتا کیا ہے۔ صالحہ بیگم کے بچے ان کی بیماری کا سبب جان چکے تھے ۔ اس لیے اب ڈاکٹر اور ٹیسٹوں پر ہونے والا خرچہ آنے والے مہمانوں کے چائے پانی پر خرچ کر دیا جاتا۔
✍️ عامر انور۔۔۔۔۔۔۔۔۔




