اُردو ادباُردو شاعریغزل

غزل / دیوار کوئی شے نہیں در کوئی شے نہیں / شاہد ذکی

غزل 

 

دیوار کوئی شے نہیں در کوئی شے نہیں 

گھر سے نکل کے دیکھیے گھر کوئی شے نہیں 

 

سب کچھ فنا ہے تو یہ مسافت ہے کس لئے 

کس شے کی جستجو ہے اگر کوئی شے نہیں 

 

دل کی تسلّی کے لئے گٹھڑی اُٹھائی ہے

ورنہ درونِ رختِ سفرکوئی شے نہیں

 

خالی ہوں سو خلاؤں کا دکھ جانتا ہوں میں 

مجھ کو ادھر بساؤ جدھر کوئی شے نہیں 

 

سودا نہ ہو تو سر ہے فقط کاسۂ سفال 

جذبہ نہ ہو تو دستِ ہنر کوئی شے نہیں 

 

اک لہر آئی اور اٹھا لے گئی اُسے 

جو مجھ سے کہہ رہا تھا بھنور کوئی شے نہیں 

 

تُو منظرِ مہیب سے آگے نہیں گیا 

میری نظر میں تیری نظر کوئی شے نہیں 

 

دیکھا تھا پہلی بار تو سب کچھ یہیں پہ تھا

لیکن یہ کیا کہ بارِ دگر کوئی شے نہیں 

 

شاہد ثمر جڑوں سے زیادہ حسیں سہی 

لیکن ہوا چلے تو ثمر کوئی شے نہیں 

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x