غزل
غزل / دل ہے تصویر کو اُس کے زرا شایان بنا / گل جہان
غزل
دل ہے تصویر کو اُس کے زرا شایان بنا
بولتے نقش بنا ، آنکھ کو حیران بنا
ان کہی پر ترا ایماں تو نہیں ہے لیکن
میری آواز کے چہرے پہ کبھی کان بنا
پھر مرا دن بھی منا لینا مگر پہلے تُو
کرّہِ عرش پہ انسان کا فقدان بنا
تا کہ یہ علم ہو کتنا ہے ضروری ملنا
میری تنہائی کو تنہائی کا مہمان بنا
کیفیت میری بنانی ہے تو پھر لازم ہے
گیلے کاغذ پہ تغیّر بھرا نقصان بنا
سارا جغرافیہ مرہون ہے منشاوں کے
عشق نے انگلی رکھی ، خطہ ء بولان بنا
بس اسی کھوج نے پہنچایا خدا تک مجھ کو
پہلے انسان بنا یا کوئی امکان بنا ؟
دور تک چبھتا دکھوں جاتا ہوا منظر میں
عکس ہجرت کا مرا بے سروسامان بنا
حیرتی آنکھ ، شکن دار جبیں ، لب خاموش
کوئی پرچہ تو مرے واسطے آسان بنا




