اُردو ادبافسانہ

سنگھار / ندا طور

ابا کی روز کی چخ چخ سے تنگ آ کر آخر میں نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کر لیا۔ منزل کیا تھی کچھ پتہ نہیں تھا۔ بس یہ سوچ لیا تھا کہ مجھے اب یہاں نہیں رہنا۔ اور دکان پر تو بالکل بھی نہیں بیٹھوں گا۔ میں اپنی ساری زندگی کھونٹے سے بندھے ہوئے جانور کی طرح نہیں گزار سکتا۔۔۔
رات کا ایک بج چکا تھا جب میں نے اپنا رخت سفر باندھنا شروع کیا۔ میں یہاں سے کچھ بھی نہیں لے جانا چاہتا تھا سوائے ایک جوڑا کپڑوں کے۔ لیکن مجھے تب تک تھوڑے بہت پیسوں ک ضرورت تھی جب تک مجھے کوئی اچھا سا کام نہ مل جاتا۔۔
ایک گہری سانس لیتے ہوئے سوچا "آہ یہ پیسہ بھی کیا چیز ہے پیدا ہونے سے لے کر قبر میں اترنے تک اس کے بغیر گزارا نہیں۔۔۔”
میں نے اماں کے کمرے کا رخ کیا جہاں میری جنت جہنم کے بکھیڑوں سے آزاد ہو کر سو رہی تھی۔۔۔
یہ ابا اور اماں کا مشترکہ کمرہ تھا۔ ابا کبھی کبھار باہر دکان میں ہی سو جاتے تھے اور آج بھی وہ باہر ہی تھے۔ یہ اچھا موقع تھا الماری سے پیسہ نکالنے کا۔۔۔۔
میں نے دو تین بار الماری کی تلاشی لی مگر ایک روپیہ تک نہ ملا۔ "کیا ابا نے پیسوں کی جگہ بدل دی ہے۔” میں نے غصے سے دانت کچکاتے ہوئے سوچا۔ مایوس ہو کر واپس مڑا تو اچانک میری نظر اماں کے چہرے پر پڑی۔
نیند میں بھی وہ کتنی مہربان اور جان نچھاور کر دینے والی لگ رہی تھیں۔ دن بھر کی تھکن سے چور جب وہ سوتیں تو پھر چاہے ان کے گرد ڈھول تاشے پیٹے جائیں وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی تھیں۔۔۔۔
مجھے بے ساختہ اپنی بھولی سی ماں پر پیار آ گیا اور میں نے آگے بڑھ کر ان کی پیشانی کا بوسہ لے لیا۔۔۔
کمرے سے نکلتے وقت میں نے پیچھے مڑ کر اماں پر الوداعی نظر ڈالی، ایک کان کی بالی کے بغیر بھی وہ مکمل لگ رہی تھیں۔۔۔
ان کی ہمیشہ سے خواہش رہی تھی کہ یہ بالیاں وہ اپنی بہو کو پہنائیں گی۔ لیکن میں انہیں پیار سے منع کر دیتا کہ "اماں یہ تو تیرا سنگھار ہیں۔ وہ جب آئے گی تو اپنی قسمت ساتھ لائے گی۔” اماں اس بات پر خوش ہو جاتیں اور آئینے میں رخ بدل بدل کر اپنا چہرہ دیکھتیں۔۔۔
اب میں نے بھاگنا شروع کیا گھر کی دہلیز پار کی، گاؤں کی حدود سے نکلا، بس پکڑی اور شہر کی فضاؤں میں گم ہو گیا۔۔۔
میں چلتا رہا اور بھاگتا رہا اگر پیچھے مڑ کر دیکھتا تو پتھر کا ہو جاتا۔۔۔
شہر کی پہلی صبح نے میرا استقبال کیا۔ لوگ سو رہے تھے مگر ٹریفک رواں دواں تھی۔۔۔
کتنی ہی دیر تک بس اسٹینڈ پر بیٹھا رہا۔ دن کافی چڑھ آیا تو بھوک نے ستایا، تھوڑی دور بنے ڈھاںے کا رخ کیا۔ جیب نے صرف چائے اور پاپے کی اِجازت دی تو اسی پر قناعت کرتے ہوئے آنے والے حالات کا جائزہ لینے لگا۔ سامنے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا سوائے گرد و غبار کے اور میں ایسے مسافر کی طرح تھا جو مسلسل غلط راستے پر چلتے ہوئے منزل سے دور ہو گیا تھا۔۔۔۔
ڈھابے سے نکلنے کے بعد مجھے چھوٹا موٹا کام ڈھونڈنا تھا اور ساتھ ہی رہنے کا ٹھکانہ بھی۔ یہاں اور تو کوئی جاننے والا نہیں تھا اس لیے تاجے سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
رکشہ والے کو پتہ بتا کر اس میں سوار ہو گیا۔
میں نے دل ہی دل میں سوچا ہمارے گاؤں کا ممتاز عرف تاجا یہاں سرکاری ہسپتال میں ایمبولینس چلاتا ہے۔ وہ مجھے کوئی نہ کوئی اچھا سا کام ڈھونڈ ہی دے گا اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے میں اتنا پیسہ کماؤں گا کہ ایک دن بہت بڑا بزنس مین بن جاؤں گا۔۔۔
خواب خوبصورت ہوں تو خیالات بھی اچھے ہی آتے ہیں۔
پتا نہیں کس خیال کے تحت میرا ہاتھ اپنے سینے پر رینگنے لگا۔ اور ایک سرشاری سی محسوس ہونے لگی۔ مایا کی کشش ہی عجیب ہوتی ہے اور یہ تو پھر میری ماں کی نشانی تھی۔ وہ دن دور نہیں جب میں اپنی اماں کو سونے چاندی میں نہلا دوں گا۔۔۔
انہی سوچوں میں گم تھا کہ سڑک میں پڑے جا بجا گڑھوں میں اچانک رکشہ اچھلا اور سر چھت سے ٹکرایا آنکھوں میں تارے ناچ گئے۔۔۔
آخری بچا ہوا نوٹ ڈرائیور کو دیا اور خود ہسپتال کے احاطے میں داخل ہو گیا۔
دکھ اور مصیبتوں کے مارے ہوئے لوگ جلد از اپنے مسیحا تک پہنچنا چاہتے تھے۔ کوئی بوڑھے ماں باپ کو گھسیٹ رہا تھا تو کوئی اپنی جوان اولاد کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔ سب جلد از جلد تکلیف سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔۔۔
میں وہیں عمارت سے باہر پڑے بینچ پر بیٹھ گیا۔ تاجا مجھے یہیں مل سکتا تھا کسی آتی جاتی ایمبولینس پر۔۔۔
تھوڑی دیر گزری تو ایک گاڑی احاطے میں داخل ہوئی۔ گاڑی رکی تو ڈرائیور نے مریض کو اس کے گھر والوں کے ساتھ مل کر سٹریچر پر ڈالا اور اندر ہسپتال میں منتقل کر دیا۔ غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ یہ تو یہ تاجا نہیں تھا۔
دوپہر سے شام ہو گئ مگر تاجا نہیں آیا۔ میں نے مایوس ہو کر اٹھنا چاہا تو سامنے سے گاڑی آتی دکھائی دی۔
یہ تاجا ہی تھا وہ لوگ آناً فاناً گاڑی سے اترے اور تقریباً بھاگتے ہوئے کسی مریض کو اندر لے گئے۔ میں وہیں پر ہاتھ ہلاتا رہ گیا۔۔۔
کافی دیر انتظار کرنے کے بعد جب تاجا باہر نہیں آیا تو میں بھی عمارت کے اندر چلا گیا۔
ایمرجنسی وارڈ کے سامنے ڈاکٹر سے بات کرتے ہوئے وہ مجھے نظر آ گیا بہت پریشان لگ رہا تھا۔ شاید کسی کے ہارٹ اٹیک کی بات کر رہے تھے۔ تھوڑا قریب گیا تو اچانک میری نظر ابا پر پڑی اور میں ٹھٹھک کر دو قدم پیچھے ہٹا۔ ابا یونہی سر جھکائے بیٹھے رہے۔ میرے حواس بحال ہوئے تو ابا کو پکڑ کر جھنجھوڑا "کیا ہوا ہے ابا ایسے کیوں بیٹھے ہیں کچھ بتاتے کیوں نہیں۔”
ابا کو تو جیسے کسی کندھے کا انتظار تھا انہوں نے میرے سامنے اپنی مُٹھی کھول دی اور ہچکیاں لے کر رونے لگے۔
سینے میں درد کی شدید لہر اٹھی۔ میں نے دوسری بالی بھی جیب سے نکال کر ابا کے ہاتھ پر رکھ دی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

1 Comment
Inline Feedbacks
View all comments
Aamir Anwar
Aamir Anwar
1 month ago

بہت عمدہ اور خوبصورت افسانہ ۔۔

Related Articles

Back to top button
1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x