اُردو ادببلاگ / کالمز

دوست میری مرقد پر آؤ گی/ عطرت بتول نقوی

 

جب میں نے میڑک کا امتحان دیا تو ابھی رزلٹ آوٹ نہیں ہوا تھا کہ والد صاحب کی پوسٹنگ ھیڈ مرالہ ضلع سیالکوٹ سے انڈس رینجرز میں ہوگئی اور ہم حیدر آباد کے نزدیکی شہر بدین میں شفٹ ہوگئے وہاں جب میرا اسلامیہ کالج بدین میں داخلہ ہوا تو میری دوستی ایک لڑکی ثمینہ ناز سے ہوئی اگرچہ وہ سائینس کی طالبہ تھی اور میں آرٹس کی لیکن اردو ادب سے لگاو کی وجہ سے ہماری دوستی بہت گہری ہوگئی ہمارے کالج کی لائبریری بہت اچھی تھی ہم دونوں وہاں سے سٹوڈنٹس کارڈ پر کتابیں ایشو کرواتیں اسے پڑھتیں اور پھر لائبریری کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اس پہ تبصرہ کرتیں ہم نے اردو ادب کی مشہور کتابیں پڑھ ڈالیں جمیل الدین عالی اور ابن انشاء کے سفر نامے ، قرۃالعین حیدر کے ناول، کرشن چندر کی کتابیں اور پھر فیض احمد فیض اور فراز کے شعری مجموعے غرض کہ ہم نے بہت کتابیں پڑھیں ان پہ گفتگو کی ان کے اقتباسات اپنی ڈائری میں لکھے فر سٹ ائیر کا خوبصورت زمانہ تھا ذمہ داریاں نہیں تھیں ، اکثر لڑکیاں ہماری دوستی اور ذہنی ہم آہنگی سے جیلس ہوتیں
جب کالج میں چھٹیاں ہوجاتیں تو ہمیں بہت بوریت ہوتی یہ 1980ء کا زمانہ تھا اور فون کی سہولت عام نہیں تھی ہم نے اس کاحل نکالا کہ ہم روزانہ ایک دوسرے کو خط لکھتی تھیں ثمینہ خط لکھ کر اپنی چھوٹی بہن کو دے دیتی وہ اسکول میں میری چھوٹی بہن کو دے دیتی کیونکہ ہم دونوں کی بہنیں پی اے ایف ماڈل اسکول بدین میں ایک ہی کلاس میں تھیں ان خطوط میں بھی زیادہ تر کتابوں کا ذکر ہے اور لا ابالی عمر والے ہنسی مذاق، ہم غالب یا میر کا کوئی مشہور شعر لکھتیں اور پھر شاعر کے تخلص کی جگہ اپنا نام لکھ دیتیں اور کہتیں میرا نیا شعر پڑھا؟
آج 43 سال بعد بھی یہ خطوط میرے پاس محفوظ ہیں ، ثمینہ شاعری بھی کرتی تھی اور وقتا فوقتا اپنا کلام بھی مجھے بھیجتی تھی ، یہ خوبصورت زمانہ جلد بیت گیا فرسٹ ایئر کے فائنل امتحانات سے فارغ ہوے تو والد صاحب کی پوسٹنگ ہوگئی اور بدین چھٹ گیا اس کے بعد ہمارا خطوط کے ذریعے رابطہ رہا اور آہستہ آہستہ جب مصروفیات بڑھیں تو خطوط لکھنا بھی چھٹ گئے وہ نوابشاہ میڈیکل کالج میں چلی گئی اور میں جہاں والد کی پوسٹنگ ہوتی وہاں کے تعلیمی اداروں میں، بہت سی نئی سہلیاں بنیں سب سے اچھی دوستی رہی لیکن ثمینہ نے اور میں نے ایک دوسرے کوفراموش نہیں کیا عملی زندگی میں آنے کے بعد بھی شادیاں ہو جانے اور بچوں کی مصروفیات کے بعد بھی، ایک مدت کے بعد جب وہ ڈاکٹر بن گئی تھی اور اسلام آباد میں پریکٹس کر رہی تھی اور میں اب باقاعدہ رائٹر بن گئی تھی میری کتاب پری گل بھی شائع ہو چکی تھی تو 43 بعد ہماری ملاقات ہوئی وہ یاد گار لمحات تھے ہوا یوں تھا کہ فیس بک پر کسی نے اپنے اسکول کے زمانے کی پی اے ایف ماڈل اسکول کی تصویر لگائی جسے دیکھ کر میری یادیں تازہ ہوگئیں میں نے تصویر لگانے والی خاتون ڈاکٹر راحت سے ان باکس میں رابطہ کیا اور ثمینہ کا پوچھا وہ خاتون ڈاکٹر راحت ثمینہ کو بہت اچھی طرح سے جانتی تھی بلکہ ثمینہ کی اس بہن کی کلاس فیلو تھی جو اسکول میں میرے لیے ثمینہ کے خطوط لاتی تھی پھر کیا ہوا فون نمبرز کا تبادلہ ہوا شدید اکساٹمیٹ ہوئی اور جب ہماری بات ہوئی تو لگتا ہی نہ تھا کہ بیچ میں چالیس سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور یہ کھلنڈری سی لڑکیاں اب مدبر خواتین ہیں ہم اسی طرح ڈھیروں باتیں کرتے ملنے کے پروگرام بناتے اس کے بیٹے کی شادی ہوئی تو ان دنوں کرونا عروج پر تھا میں نہیں جا سکی ، آخر ہمارا رائٹر گروپس کا اسلام آباد جانے کا پروگرام بنا جہاں ہم نے رائٹر ہاوس میں ٹھہرنا تھا میں نے ثمینہ کو یہ پروگرام بتایا اور پھر اتنے سالوں بعد ہماری ملاقات ہوئی وہ لمحات ناقابل فراموش ہیں سترہ اٹھارہ سال کی لاابالی عمر کے بعد اور اب اتنے عرصہ بعد ملنا ایک فسوں خیز ملاقات تھی ہم نے ڈھیروں باتیں کیں وہ میرے لیے کتاب اور قلم کا تحفہ لے کر آی کتاب تھی کلیات فیض ، ہم نے ملکر کھانا کھایا اور اس خوابناک ، معصومیت کے زمانے کو یاد کیا جب نہ تو دنیا کی بے ثباتی کا احساس تھا نہ زمانے کی تلخیوں کا
اسی خوبصورت زمانے میں جب میں بدین چھوڑ آئی تھی ثمینہ نے میرے لیے ایک نظم لکھی تھی جو خط کے ساتھ مجھے بھیجی یہ بھی اب تک میرے پاس محفوظ ہے اور عنقریب ثمینہ کی شاعری کی کتاب آنے والی ہے جس میں یہ نظم شامل ہوگی

عطرت کے نام

میں جب مر جاؤں گی عطرت
میری مرقد پہ آو گی ؟
اور اس پر تم چڑھانے کے لئیے
کیا پھول لاو گی ؟
دعا مانگو گی ہاتھوں کو اٹھا کرتم
مری خاطر؟
مجھےپھر یاد کرکے تم وہاں آنسو
بہاو گی ؟
اگر تم آو گی
تب پھر
وہاں پھیلی ہوئی مٹی کے زرے
تم سے پوچھیں گے
وفا کا نام کیا اب بھی جہاں میں
کوئی لیتا ہے ؟
محبت کی شمع
کیا اب بھی لوگوں کے دلوں میں
جلتی رہتی ہے ؟
بتاو
الفتوں کے جام کیا سب اب
بھی پیتے ہیں؟
وفا کے گیت گاتے ہیں؟
محبت کو جگاتے ہیں؟
اگر یہ کہہ دیا تم نے
کہ
ہاں اب بھی محبت کی شمعیں جلتی ہیں ویسے ہی
وفا کے گیت بھی لوگوں کے ہونٹوں
پہ مچلتے ہیں
تو جب سیلاب آئیں گے
زلزلوں سے یہ زمیں ہل ہل پڑے گی تب
یہ ننھے خاک کے زرے
لحد کو چیر کے میری
پہنچ جائیں گے پھر مجھ تک
میں جب پیغام سن لوں گی تو کہہ
دوں گی کہ
ہاں دیکھو ! مجھے عطرت سے اور عطرت کو میری خاک سے کتنی محبت ہے
نوٹ: یہ نظم اوائل ِ نوجوانی کے دَور کی ہے، دورِ حاضر کی بچوں کی مشہور مصنفہ عطرت بتول نقوی صاحبہ انٹرمیڈیٹ کے پہلے سال میں1980 میں ثمینہ ناز کی کلاس فیلو تھیں اور دونوں کی دوستی کی بنیادی وجہ اردو ادب سے لگاؤ تھا، یہ نظم ثمینہ ناز نے 16 سال کی عمر میں عطرت بتول کے لیے لکھی تھی۔

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x