نظم

سحر تاب / مہرو ندا احمد

سحر تاب

 

اس روز جب تم رسوئی کی پیڑھی پہ بیٹھے تھےاور میرے

آرد سنے ہاتھ قاصر تھے

زلفِ گراں سینچتے

میں نے تم سے کہا

اے سحر تاب

اے میرے مصرعۂ تر

تم زرا میرے بکھرے ہوئے بال پھر سے سمیٹو مگر تم نے ہنستے ہوئے

میرا کیچر نکالا جو سمٹے تھے بکھرا دئیے وہ بھی اور دیر تک

مجھ پہ ہنستے رہے

میری گردن پہ چٹکی بھری

کان کی لو چھوئی 

اور میری کہی سب سنی ان سنی کر کے

تادیر تم بولتے ہی رہے

عالمِ جذب میں گھولتے ہی رہے

کوئی رس

گوش بر

 

میرے ماتھے پہ بوسہ دیا اور گئے 

میں نے کتنی مشقت سے آرد کو گوندھا، پکایا،. کھلایا نجانے یا رکھا رہا 

تم کو کو کیا 

مجھ کو خود بھی پتہ نہ چلا 

اور تمہاری طرف ہو گئی 

ہاتھ رکھے ہوئے میرے سینے کے جزدان پر تجھ سے کہنے لگی 

حالِ دل 

اے سحر تاب 

اے میرے مصرعۂ تر! 

اور تم رات بھر میری سنتے رہے

میں نے جب یہ کہا کہ اداسی بری چیز ہے 

تو کہا میں تمہاری اداسی بھگانے کو آتو گیا 

تم کو بھا جو گیا 

اب کہ تمہارے ہی ساتھ ہوں 

میں نے پھر سے کہا

تم مرے ساتھ ہو

تم نے پھر سے کہا ہاں ترے ساتھ ہوں 

دم بہ دم، ہمہ دم

اور میں سو گئی 

تم کہانی سنانے لگے

سنتے سنتے کہانی نجانے کہاں، کیسے، کس موڑ پر 

میں تمہاری ہی کشتی میں سوتی رہی

اے سحر تاب 

ملاح مرے 

اپنی بانہوں کو چپو کیے جانے کتنے قرن کھینچتے ہی رہے  

تم روانی سے پانی میں کشتی تمہاری 

میں سوتی رہی

 

چین کی نیند یا نیند غفلت کی تھی 

مجھ کو احساس تک نہ ہوا 

دھوپ چھاؤں تھے بادل تھا 

جنگل تھے بیلے تھے رستے میں

میلے، جھمیلے تھے

کیا تھا نہیں تھا مجھے کچھ خبر نہ ہوئی 

اور بارش نے جھنجھوڑ کر اک صبح 

جب جگایا مجھے 

تب بھی ہونٹوں پہ مسکان تھی 

میں مگر مسکرا نہ سکی

میں نے سوچا اکیلا ہے لیکن خدا تو نہیں 

اپنے ہر غم کا اس سے مداوا کرانے کی کیوں ٹھان لی 

ایک دن بال ہی تو زرا اس نے بکھرا دئیے 

میں نے بدلے میں اس کو خدا کر کے 

سب سے جدا کر کے 

کشتی چلانے کو بس گیت گانے کو کیوں رکھ لیا 

یار انسان ہے 

اس میں بھی جان ہے 

اس کے بھی کچھ کرشمے تو ہونگے 

جو اس نے جہاں کو دکھانے تو ہونگے 

مگر میں نے اس کو فقط ایک منظر کا قیدی کیا

اور سوتی رہی 

 

اے سحر تاب 

ملاح مرے 

خونچکاں ہے مگر دل سنبھل جائے گا 

درد کا یہ سمندر بھی ٹل جائے گا 

پاسداری میں تم نے زباں کی بہت دیر تک 

مجھ کوکاندھے پہ لادے رکھا 

بوجھ کو بوجھ تک نہ کہا 

اور محبت سے کشتی چلاتے رہے 

گیت گاتے رہے 

پر مجھے اس کا احساس ہے 

تم مروت کی میٹھی زباں بولتے تھک نہ جاؤ کہیں 

اپنا رخ موڑ لو

میرے ہر عہد سے اب تم آزاد ہو 

لاکھ سب سے جدا ہو

مگر تم خدا تو نہیں 

آدمی زاد ہو 

اب تم آزاد ہو 

Author

  • توحید زیب

    روحِ عصر کا شاعر ، جدید نظم نگار ، نظم و غزل میں بے ساختگی کے لیے مشہور

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x