غزل /جوگ لے عشق میں اور تخت ہزارہ چھوڑے/احتشام حسن

غزل
احتشام حسن
جب سے باندھا ہے ترے عشق کی زنجیر سے دل
اب سنبھلتا ہی کہاں ہے کسی تدبیر سے دل
عین دہلیز پہ روکا ہے غم_ تازہ نے
بس نکلنے کو ہی تھا حالت_ دلگیر سے دل
جوگ لے عشق میں اور تخت ہزارہ چھوڑے
کوئی ایسا ہو تو مانگے بھی کسی ہیر سے دل
چلتے چلتے یہ تجھے دیکھ کے ایسا ٹھہرا
کہ دھڑکنے پہ بھی راضی ہوا تاخیر سے دل۔
نام آ جاتا ہے تیرا مری ای سی جی پر
باز آتا ہی نہیں عشق کی تشہیر سے دل
یار یوں کر مرا لکھا ہوا خط کھول کے دیکھ
حرف بن بن کے اڑیں گے مری تحریر سے دل
عکس نے تیرے طلب اور زیادہ کر دی
میں یہ سمجھا تھا بہل جائے گا تصویر سے دل
شعبدہ باز ستمگر کے مشاغل دیکهو
تیر کو دل سے گزارے ہے کبھی تیر سے دل
عشق_ کامل کی ہے بخشش وہ دلیری کہ اگر
ہاتھ خالی بھی ہوں لڑ جاتا ہے شمشیر سے دل
دل_ بیتاب کو تم خاک سنبھالو گے حسن
جب سنبھالا نہ گیا میر تقی میر سے دل




