بچوں کا ادبکہانی

نتاشا کا بھالو/ کنول بہزاد

نتاشا کی دسویں سالگرہ قریب آرہی تھی ، وہ گھر میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی۔۔۔اس لیے سب گھر والے چپکے چپکے تیاریوں میں لگے ہوئے تھے تاکہ اسے سرپرائز دے سکیں ۔۔۔گھر والوں میں امی ابو، بیلا آپی اور راحیل بھیا شامل تھے ۔
آخر سالگرہ کا دن آن پہنچا ۔۔۔نتاشا سکول سے آکر سو گئی تو سب تیاریوں کو حتمی شکل دینے میں لگ گئے ۔
بیلا آپی نے باغیچے سے ڈھیر سارے پھول توڑ کر گملوں میں سجائے۔۔۔راحیل بھائی غبارے پھلانے میں مصروف ہوگئے ۔۔۔امی کچن میں پھلوں کی چاٹ اور سموسے وغیرہ بنانے لگ گئیں اور ابو بیکری سے کیک لینے چلے گئے ۔۔۔جس کا آرڈر انہوں نے ایک دن پہلے ہی دے دیا تھا ۔
شام کو نتاشا اٹھی تو سامنے کھڑی بیلا آپی نے اسے ” سالگرہ مبارک” کہہ کر گلے لگا لیا ۔
” ہائے سچ میں ۔۔۔آج میری سالگرہ ہے مجھے تو یاد ہی نہیں تھا ۔۔۔”
وہ بیلا آپی کو پیار کرتے ہوئے بولی ۔
” جی۔۔۔آج کے دن ہی تو یہ پری ہمارے گھر آئی تھی۔۔۔”
بیلا آپی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
” اب جلدی سے یہ فراک پہن کر تیار ہو جاؤ ۔۔۔تمہاری سہیلیاں بس پہنچنے والی ہوں گی ۔۔۔”
نتاشا گلابی رنگ کا خوبصورت فراک دیکھ کر نہال ہوگئی اور تیار ہونے چلی گئی ۔
سالگرہ کا اس قدر اہتمام دیکھ کر نتاشا کے ساتھ ساتھ اس کی سہیلیاں بھی بہت خوش ہوگئیں ۔۔۔گیتوں اور نظموں کا مقابلہ ہوا ۔۔۔میوزیکل چئیر اور دیگر کئی کھیل کھیلے گئے ۔۔۔غرض گھر میں خوب ہلہ گلہ اور رونق رہی ۔۔۔
سب کے جانے کے بعد تحائف دیکھنے کی باری آئی تو نتاشا کو سب کے تحائف پسند آئے لیکن بیلا آپی کی جانب سے دیا گیا بھالو کاتحفہ پسندیدہ ترین ٹھہرا۔۔۔
” بیلا آپی یہ تو وہی بھالو ہے جو بہت دن پہلے ہم نے ایک مال میں دیکھا تھا ۔۔۔مگر قیمت زیادہ ہونے کے سبب چھوڑ دیا تھا ۔۔۔”
نتاشا نے خوش ہو کر کہا ۔۔۔

” ہاں بالکل وہی۔۔۔مجھے یاد رہا۔۔۔اور میں نے تب ہی سوچ لیا تھا کہ بچت کرکے اسے ضرور خریدوں گی اور تمہیں سالگرہ پر دو ں گی۔”
نتاشا آپی نے پیار سے جواب دیا ۔
"بہت بہت شکریہ آپی ۔۔۔آپ کتنی اچھی ہیں ، میں اسے ہمیشہ بہت سنبھال کر رکھوں گی”
نتاشا نے بھالو کو خود سے لپٹاتے ہوئے کہا ۔

بس جی آنے والے دنوں میں واقعی بھالو نتاشا کا لاڈلا بن گیا ۔۔۔وہ ہر وقت اسے اپنے ساتھ رکھتی ۔۔۔کھیل رہی ہوتی تو تب ساتھ ہوتا ۔۔۔پڑھ رہی ہوتی تو اسے بھی کوئی کتاب تھما دیتی۔۔۔اور تو اور ابو کی عینک بھی اس کی ناک پر جما دیتی۔۔۔سوتی تو اسے بھی ساتھ والے تکیے پہ لٹا دیتی۔۔۔بیلا آپی یہ سب دیکھ کر مسکراتی رہتیں۔۔۔کیونکہ دونوں بہنوں کا کمرا بھی ایک ہی تھا ۔۔۔
وقت یونہی گزرتا جا رہا تھا ۔۔۔بیلا آپی اپنی پڑھائی کی وجہ سے بہت مصروف رہنے لگی تھیں ۔۔۔وہ بہت محنت کر رہی تھیں تاکہ سکالرشپ پر پڑھنے کے لیے برطانیہ جا سکیں۔۔۔آخر ان کی امید بر آئی اور انہیں وہاں نوٹنگھم یونیورسٹی میں سکالرشپ پر داخلہ مل گیا ۔
سب گھر والے خوش ہونے کے ساتھ ساتھ اداس بھی تھے جن میں نتاشا سب سے زیادہ پریشان تھی۔
” مجھے نہیں پتہ ۔۔۔آپ نہ جائیں ۔۔۔میں آپ کے بغیر یہاں کیسے رہوں گی ۔۔۔”
ایک روز وہ منھ بسور کر بولی۔
” پیاری تاشی۔۔۔ایسے نہیں کہتے ۔۔۔علم حاصل کرنے کے ایسے مواقع ہر ایک کو نہیں ملتے۔۔۔پورے ایشیا کے لیے یہ ایک ہی سکالرشپ تھا جو مجھے ملا ہے ۔۔۔میں نے اس کے لیے بہت محنت کی ہے ۔۔۔
اس کی بدولت میں ناصرف دنیا کے ایک بہترین ادارے سے تعلیم حاصل کر سکوں گی بلکہ نئے نئے لوگوں اور کلچر سے بھی متعارف ہوں گی ۔۔۔نئے نئے تجربات زندگی کا حصہ بنیں گے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا ۔۔۔کل کو یہ علم اور تجربہ میں اپنے ملک اور لوگوں کی بہتری کے لیے کام میں لاسکوں گی۔۔۔
آیا کچھ سمجھ میں ۔۔۔”
آپی نے بات ختم کر کے پوچھا تو نتاشا بولی:

” جی آپی ۔۔۔میں سمجھ گئی ۔ آپ کو ضرور جانا چاہئے ۔۔۔بس آپ روزانہ مجھ سے فون پر بات کیا کیجئے گا۔۔۔”
نتاشا نے وعدہ لیا ۔
یوں بیلا آپی کچھ دن بعد برطانیہ چلی گئیں ۔۔۔
نتاشا اب اپنے بھالو سے بیلا آپی کے بارے میں خوب باتیں کرتی رہتی۔۔۔ وہ بھی اکثر فون کرتی رہتیں ۔۔۔
ایک ویک اینڈ پر امی کی ایک دوست ان کے گھر ملنے کے لیے آئیں ۔۔۔ان کی پیاری سی پانچ سالہ بیٹی عیشا بھی ساتھ تھی۔ نتاشا اس کے ساتھ کھیلتی رہی ۔۔۔اسے اپنے کمرے میں لے گئی۔۔۔اپنے کھلونے بھی کھیلنے کے لیے اسے دیے ۔۔۔جب مہمان جانے لگے تو عیشا نے نتاشا کا بھالو بھی ساتھ اٹھا لیا ۔۔۔نتاشا نے نرمی سے اس سے واپس لینا چاہا تو وہ زور زور سے رونے لگی ۔۔۔عیشا کی امی نے بھی اسے بہلانے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ۔۔۔اب تو نتاشا بھی گھبرا گئی ۔۔۔وہ بیلا آپی کے دیے ہوئے اس لاڈلے بھالو سے دستبردار ہونے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھی۔۔۔مگر دوسری طرف بچی بھی بڑی ضدی تھی ۔۔۔آخر نتاشا کی امی مجبوراً بولیں:
” کوئی بات نہیں ۔۔۔آپ یہ بھالو ساتھ لے جائیں ۔۔۔بچی کو یوں نہ رلانا ٹھیک نہیں۔۔۔”

نتاشا نے پریشان ہو کر امی کی طرف دیکھا ۔۔۔کہ وہ ایسے کیسے کہہ سکتی ہیں ۔۔۔مگر امی نے نتاشا کو چپ رہنے کا ا شارہ کیا۔۔۔

مہمان چلے گئے تو نتاشا روٹھ کر کمرے میں چلی گئی ۔۔۔اسے اپنا بھالو اور بیلا آپی بہت یاد آ رہی تھیں ۔۔۔
” کیا سوچیں گی آپی کہ میں نے ان کا دیا تحفہ کسی اور کو دے دیا ۔۔۔”
نتاشا کو رونا آگیا ۔۔۔
گھر میں سب نے اسے سمجھایا کہ چھوٹی بچی کی ضد کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا۔۔۔وہ اداس نہ ہو ۔۔۔مگر اس کا دل بہت دن تک اداس ہی رہا ۔۔۔
اس کے سالانہ امتحانات سر پہ آئے تو وہ پڑھائی کی مصروفیت کے باعث سب بھول بھال گئی ۔۔۔امتحانات کے کچھ ہی دن بعد بیلا آپی کے پاکستان آنے کی اطلاع ملی ۔۔۔وہ پورے ایک سال بعد آ رہی تھیں ۔۔۔سب گھر والے بہت خوش تھے ۔۔۔سب سے زیادہ نتاشا خوش تھی۔۔۔اس نے نئے سرے سے اپنے کمرے کی صفائی ستھرائی کی ، الماری سیٹ کی۔۔۔پردے بدلوائے ۔۔۔کچھ نئی آرائشی اشیاء لا کر رکھیں ۔۔۔ اور بہن کے آنے کے دن گننے لگی۔۔۔
خدا خدا کر کے وہ دن آن پہنچا جب بیلا آپی پاکستان پہنچ گئیں ۔۔۔سب گھر والے انہیں لینے ائیرپورٹ گئے۔۔۔
سارا راستہ باتیں ہوتی رہیں ۔۔۔را ستہ کٹنے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔
گھر پہنچ کر راحیل بھائی نے ان کا سامان کمرے میں پہنچا دیا ۔۔۔بیلا آپی اور نتاشا بھی باتیں کرتے کرتے پیچھے چلی آئیں ۔۔۔
” ارے۔۔۔تاشی واہ۔۔۔کمرا تو بہت اچھا لگ رہا ہے مگر ۔۔۔تمہارا وہ لاڈلا بھالو نہیں نظر آرہا ۔۔۔ کہاں ہے ۔۔۔؟”
بیلا آپی نے اچانک سوال کیا تو نتاشا چپ کی چپ رہ گئی ۔۔۔اس کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔۔
” ارے یہ کیا ۔۔۔تم اداس کیوں ہو گئیں ؟”
بیلا آپی نے پیار سے پوچھا ۔
تب نتاشا نے ساری کتھا کہہ ڈالی
۔۔۔
” سوری آپی۔۔۔میں آپ کا دیا تحفہ سنبھال کر نہیں رکھ سکی۔۔۔جسے آپ نے بچت کرکے میرے لیے اتنے پیار سے خریدا تھا ۔۔۔”
” ارے اتنی سی بات ۔۔۔ہم ایک دوسرے کو تحفہ کیوں دیتے ہیں ۔۔۔اس لیے نا !کہ ہم ایک دوسرے کا دل خوش کر سکیں ، محبت بانٹ سکیں ۔۔۔محبت جو بانٹنے سے بڑھتی ہے۔۔۔اس سے اچھی کیا بات ہو سکتی ہے کہ تم نے میری دی ہوئی محبت آگے بانٹ دی۔۔۔انسان کا کام ہی محبت اور امن کا پیغام پھیلانا ہے ۔۔۔سو جب بھی موقع ملے دیر نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔”
بیلا آپی نے نتاشا کی آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے ہوئے کہا ۔
نتاشا اب مطمئن نظر آتی تھی ۔۔۔
” اور جناب! ایسے اچھے کاموں پر ہمیں انعام بھی تو ملا کرتاہے نا ”
بیلا آپی نے اٹیچی کیس کھولتے ہوئے کہا ۔۔۔
یہ کیا ۔۔۔نتاشا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔۔۔ایک بڑا سا ،پیارا مسکراتا ہوا بھالو اس کے سامنے تھا ۔۔۔
نتاشا کے منھ سے خوشی کے مارے چیخ نکل گئی ۔۔۔
” تھینک یو آپی۔۔۔آپ کتنی اچھی ہیں نا ۔۔۔”
” ہاں۔۔۔مگر تم سے تھوڑی کم۔۔۔”
بیلا آپی شرارت سے بولیں تو دونوں بہنیں کھلکھلا کر ہنس دیں۔

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x