غزل
غزل / یہ وقت اچھے دنوں میں شمار تھوڑی ہے / افراح شوکت
غزل
یہ وقت اچھے دنوں میں شمار تھوڑی ہے
مجھے کسی کا ابھی انتظار تھوڑی ہے
میں تیری مان کے تجھ کو گلے لگا تو لوں
ترے کہے کا مگر اعتبار تھوڑی ہے
یونہی اداس ہوں موسم کو دیکھ کر ورنہ
ترے بغیر یہ دل بے قرار تھوڑی ہے
ہر ایک سانس کی قیمت وصول ہو جائے
یہ زندگی ہے کوئی کاروبار تھوڑی ہے
ہوا کے ساتھ اڑوں گی میں آسماں کی طرف
مجھے زمیں کا کوئی خوف یار تھوڑی ہے
یہ اَبر و آب تو غازہ ہیں اُس کے چہرے کا
ہمارے چاند پہ گردوغبار تھوڑی ہے
وگرنہ اس کو گرا دوں میں چند لمحوں میں
وہ دوسروں کی طرح ہوشیار تھوڑی ہے
صدا بھی دیتا ہے اور اُس پہ کہتا ہے افراح
تجھے پکارنا کوئی پکار تھوڑی ہے




