اُردو ادببچوں کا ادبکہانیکہانیاں

صحبت کا اثر / مشال فاطمہ

 

"ذیشان بیٹا جلدی کرو پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ پھر تمہیں سکول بھی تو چھوڑنا ہے۔” ذیشان کے والد نے جب یہ سب کہا تو ذیشان نے جواب میں صرف اتنا کہا

"جی بس آ گیا۔”

ذیشان کے والد روز صبح دفتر جانے سے پہلے ذیشان کو سکول چھوڑ دیتے تھے۔

ذیشان ایک بہت ہی عقلمند اور ذہین بچہ تھا۔اُس کے والد کا تبادلہ لاہور سے ملتان ہوا جس کی وجہ سے ذیشان کو اپنا سکول بھی تبدیل کرنا پڑا۔ اُس کے والد نے اُسے یہاں ایک اچھے سکول میں داخلہ دلوا دیا اور یوں اُس نے اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کر دی۔ ذیشان کا یہاں آنے کے بعد ابھی تک کوئی دوست نہیں بنا تھا۔

ذیشان جب کلاس میں داخل ہوا تو اسے اندازہ ہوا کہ اُسے شاید دس منٹ کی تاخیر ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی استاد نہیں آئے تھے اس لیے وہ دیر کیے بغیر ایک بینچ جس پہ تنویر نام کا لڑکا بیٹھا تھا اس کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔ تنویر بہت ہی لاپرواہ قسم کا لڑکا تھا۔ وہ جلد کسی کو اپنے جیسا بنانے میں ماہر تھا۔ اس پورے دن میں تنویر نے ذیشان پر اتنا اثر ڈالا کہ ذیشان اور تنویر دوست بن گئے۔ اگلے دن جب ذیشان سکول گیا تو وہ تنویر کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ اب ذیشان پڑھائی کی بجائے تنویر کے ساتھ تنویر کے فضول مشاغل میں حصہ لینے لگا، جن میں کھیلنا، زیادہ تر وقت کھیل پر صرف کرنا چھوٹے بچوں کو پریشان کرنا اور اسی طرح کا بہت کچھ شامل تھا۔ ذیشان پڑھائی سے دور ہونے لگا اور کھیل کود کے قریب، دن ایسے ہی گزرتے رہے۔ ایک روز ذیشان معمول کے مطابق تنویر کے ساتھ بیٹھ گیا تو انہیں پتہ چلا کہ ان کے ایک استاد محترم رزاق صاحب شدید بیمار ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ایک ہفتے کی چھٹی پر جا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ پیغام بھجوایا ہے جب وہ ایک ہفتے کے بعد آئیں گے تو پچھلے چھ مہینوں میں جو پڑھایا ہے اس کا ایک ٹیسٹ لیں گے اور اس ٹیسٹ کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوگا کہ کون سالانہ امتحان دے گا ؟ جب یہ بات ذیشان کو پتہ چلی تو اس نے سوچا اب اسے خوب محنت کرنی ہوگی کیونکہ وہ ابھی اس سکول میں نیا داخل ہوا تھا۔ اس وجہ سے اسے پچھلے نوٹس بھی مکمل کرنے تھے۔ جب اس نے اپنی اس مشکل کا ذکر تنویر سے کیا تو اس نے ذیشان سے ہمیشہ کی طرح غلط کہا کہ سر رزاق اورباقی تمام استاد ایسے ہی کہتے ہیں اور ٹیسٹ نہیں لیتے۔ میں تو اس فضول کام میں بالکل ٹائم ضائع نہیں کروں گا تمہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اُس نے ذیشان کو اس طرح بہکایا کہ ذیشان مان گیا۔

آخر کار وہ دن آگیا جس دن رزاق صاحب نے واپس آنا تھا اور ٹیسٹ ہونا تھا۔ انہوں نے جب ٹیسٹ کے لیے پیج نکالنے کو کہا تو ذیشان کا رنگ فق ہو گیا۔ لیکن اب کیا کرتا ؟ اب جو ہو چکا تھا اسے کون بدل سکتا تھا ؟ ذیشان نے جو آتا تھا لکھ دیا

سب سے پرچے لے لیے گئے اگلے روز جب رزاق صاحب رزلٹ لے کر آئے تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو ٹیسٹ واپس کرنے سے پہلے کچھ بتانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہماری کلاس میں دو بچے اس ٹیسٹ میں بہت بری طرح سے فیل ہوئے ہیں۔ جب یہ بات ذیشان نے سنی تو وہ ڈر گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کے نام ذیشان اور تنویر ہیں۔ پھر مزید کہا کہ ان کے والدین کے ساتھ ایک میٹنگ رکھیں گے۔ جب ذیشان کے والد کو یہ بتایا گیا تو انہیں بہت دکھ ہوا۔

ذیشان کے والد نے پرنسپل سے درخواست کی کہ وہ ایک بار پھر ذیشان کا ٹیسٹ لے لیں۔ ذیشان کے والدین نے اسے سمجھایا کہ وہ پہلے تو ایسا نہیں تھا، اسے کیا ہوا ہے ؟

ذیشان کو خود بھی احساس ہوا کہ اس سے ایک غلطی ہوئی ہے کہ اپنے دوست کے برے مشوروں پر عمل کیا۔ اسے تنویر کو بھی سمجھانا چاہیے تھا۔ اس نے خود سے عہد کیا کہ وہ اب اس کے مشورے کو غلط ثابت کر کے اسے اپنا جیسا ایک ہونہار طالب علم بنائے گا۔ اگلے دن جب ذیشان سکول گیا تو اس نے تنویر کو سمجھایا کہ اب تک میں نے تمہارا ہر غلط مشورہ مانا ہے۔لیکن ایک اچھا دوست ہونے کی حیثیت سے میں تمہیں جو مشورہ دوں گا تو کیا تم اسے تسلیم کرو گے؟ تنویر نے ہاں میں سر ہلایا۔

انہیں سر نے مزید ایک ہفتے کا وقت دیا کہ وہ اگر ٹیسٹ دے کر پاس ہو جاتے ہیں تو ان کے وہی نمبر لکھ دیے جائیں گے۔ اب تنویر اور ذیشان نے مل کر پڑھائی شروع کر دی۔ انہوں نے خوب محنت کی اور کلاس کے ان لڑکوں سے بھی مدد لی جو پڑھائی میں بہت اچھے تھے۔ ان دونوں نے کڑی محنت کی اور ایک ہفتے کے بعد وہ ایک اچھا اور شاندار ٹیسٹ دینے کے انتظار میں تھے۔ ٹیسٹ ہوا تو اس بار پچھلی دفعہ کے مقابلے میں وہ زیادہ پرسکون تھے اور اپنے دیے گئے ٹیسٹ سے مطمئن بھی۔ رزاق صاحب نے خوشی سے بتایا کہ ہماری کلاس میں ایک نیا لڑکا ذیشان اور تنویر جو پہلے سے یہاں پڑھ رہا ہے۔ ان دونوں نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ اب ایسے ہی محنت کریں گے۔ تنویر اور ذیشان ایک دوسرے کے گلے لگ گئے ان دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ تنویر نے ذیشان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تم جیسا دوست اگر میرے ساتھ ہو تو میں دنیا کا ہر امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لوں گا۔

Author

3 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x