غزل
غزل / جس کام میں تو مجھ سے ہے بہتر یہیں تک تھا / فیضان ہاشمی
غزل
جس کام میں تو مجھ سے ہے بہتر یہیں تک تھا
یہ کھیل ہے تو کھیل برابر یہیں تک تھا
اسٹیج کے اوپر مرا منظر یہیں تک تھا
سب وقت مرا اسکی گھڑی پر یہیں تک تھا
دیوار تھی جو شور مچاتی تھی گلی میں
اور یاد دلاتی تھی کہ یہ گھر یہیں تک تھا
اس خواب میں چلتے رہو چادر ہے جہاں تک
اٹھو تو بتا دینا کہ بستر یہیں تک تھا
سچ پوچھ تو ان آنکھوں نے دیکھا ہے بہت کچھ
ساحل یہ سمجھتا ہے سمندر یہیں تک تھا
مت لائو یہ کردار کہانی میں دوبارہ
اس سے تو تعلق بھی یقیں کر یہیں تک تھا
اس صحن میں ہم کھیلتے تھے آنکھ مچولی
برآمدہ ہر کمرے کے باہر یہیں تک تھا
ہاتھوں کی لکیروں سے الجھتے ہوئے تارے
دونوں کو بتاتے ہیں مقدر یہیں تک تھا




