غزل / شبِ غم اشک اِن آنکھوں میں آئے، تم نہیں آئے / یاور عظیم

غزل
شبِ غم اشک اِن آنکھوں میں آئے، تم نہیں آئے
رہی سونی مرے دل کی سرائے، تم نہیں آئے
کسی زہرِ عدم تاثیر سے تر تھی زباں میری
ملن کے میں نے کتنے گیت گائے، تم نہیں آئے
ابھی تو دھوپ کی بکھری ہوئی ہیں کرچیاں ہر سُو
گھنیرے بادلوں کے جب تھے سائے، تم نہیں آئے
سرِ دہلیزِ وعدہ ایک جھونکے نے قدم رکھا
وہاں کچھ خواب تھے جو چُرمُرائے، تم نہیں آئے
ردائے صبر میں پڑتے رہے ہیں چھید کیا کیجے
رہے ہیں طعنہ زن اپنے پرائے، تم نہیں آئے
اور اب یوں ہے امیدِ وصل کو گُھن لگنے والا ہے
سہارا یہ بھی ہم سے چِھن نہ جائے، تم نہیں آئے
بدن کو ہم نے شامِ ہجر کا ایندھن بنا ڈالا
شرر چمکے، ستارے مسکرائے، تم نہیں آئے
تمھیں اس موڑ تک جذبِ محبت لے کر آیا ہے
کہ نزدیکِ رگِ جاں بن بُلائے، تم نہیں آئے
تمھارے عشق میں یاورؔ نے اپنی عمر کاٹی ہے
در و بامِ تمنا کو سجائے، تم نہیں آئے




