اُردو ادبافسانہ

کالا چاند / مہر النساء مولوی

سیاہ راتوں میں جب چاند نکلتا ہے تو دل کو سکون سا ملتا ہے۔ جیسے اندھیرے نے تھک ہار کر روشنی سے صلح کر لی ہو۔ لیکن اگر وہ چاند ہی کالا ہو جائے … تو؟

نشمیہ نے دروازہ کھولا تو سامنے روزی کھڑی تھی۔ ایک اجنبی بچہ اس کے پہلو سے لگا تھا — گہری رنگت، آنکھوں میں عجیب سی خاموشی۔ جیسے لفظوں کی جگہ سوالات نے آنکھوں میں بسیرا کر لیا ہو۔

"یہ… تمھارا بیٹا ہے؟” نشمیہ کے لبوں سے بےساختہ نکل گیا، "تم دونوں تو گورے ہو…”

روزی نے ٹام کے گھنگھریالے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ "دل رنگ نہیں دیکھتا، نشمیہ۔ ہم نے اسے دل سے اپنایا ہے۔”

ٹام، حادثے میں لقمۂ اجل بن جانے والے افریقی نژاد جوڑے کی آخری نشانی، یتیم خانے کے زنگ آلود در و دیوار سے روزی اور جیک کے آنگن تک آیا تھا۔ سات سال کی بےاولادی کے بعد وہ ان کے لیے کسی دعا کی طرح اترا تھا — خاموش، شفیق، لیکن آنکھوں میں ایسی گہرائی لیے کہ جیسے صدیوں کی اداسی کا بوجھ اٹھا رکھا ہو۔

نشمیہ، پیشے کے اعتبار سے وکیل، جذبات کے چھپے پہلو دیکھنے کی عادی تھی۔ وہ اکثر سوچتی، کیا یہ صرف رحم کا رشتہ ہے؟ یا اس کے پیچھے کوئی ان کہی کہانی ہے؟ لیکن پھر روزی کو دیکھتی — باغ میں ٹام کے ساتھ کھیلتے، اسے گود میں لیے گانا گاتے — تو اس کے شک جیسے بہہ جاتے۔

ٹام اب اسکول جانے لگا۔ رنگت سے مختلف، مگر ذہانت میں سب پر بھاری۔ روزی اور جیک اسے لے کر مال جاتے، شاپنگ کرتے، جیسے کوئی عام سا خوشحال خاندان۔

ایک دن روزی نے کہا، "ہم نیویارک جا رہے ہیں، جیک کے والدین سے ملوانے۔”

نشمیہ کے دل میں کوئی انجان سا سوال سرسرایا — کیا وہ اسے قبول کریں گے؟

وقت گزرتا گیا۔ ٹام اب کھلنے لگا تھا، قہقہے لگاتا، کبھی کبھار سوال بھی کرتا۔ نشمیہ کی بھی شادی ہو گئی — ثاقب، پولیس افسر، سنجیدہ مگر مہربان۔ روزی اور جیک ٹام کے ساتھ مبارکباد دینے آئے۔ وہ شام ہنسی، خوشبو اور مسکراہٹوں سے بھرپور تھی۔

لیکن کچھ راتیں ایسی ہوتی ہیں، جو خوشبوؤں میں زہر گھول دیتی ہیں…

اس رات، جب سب واپس لوٹے، جیک نے نیند میں ڈوبے ٹام کو اٹھایا، اور گاڑی سے اتر کر گھر کی طرف بڑھے ۔ مگر تقدیر جیسے چھپ کر تاک میں بیٹھی تھی۔

ایک تنگ سڑک، اچانک سامنے آنے والے دو سائے، اسلحہ چمکا، گالیوں کے ساتھ دھمکیاں۔ جیک نے پرس دینے کی کوشش کی، مگر اچکے نے بوکھلاہٹ میں گولی چلا دی ۔

ٹام… وہ بچہ، جو ابھی باپ کی گود میں تھا، زمین پر بےجان پڑا تھا۔ روزی کی چیخیں، جیک کی پکاریں، سب کچھ جیسے خاموش فلم کی طرح سناٹے میں تھا ۔

پڑوس سے کسی نے پولیس کو اطلاع دی ۔ فورا پولیس موقع پر پہنچ گئی ۔ ڈکیتی کا واقعہ درج ہو گیا ۔ ملزمان کی تلاش شروع ہوئی اور جلد ہی وہ پولیس کی گرفت میں بھی آ گئے ۔ تفتیش نے کئی روپ بدلے ۔ لیکن معاملہ ڈکیتی تک ہی رہا ۔ بالآخر پولیس کی فائل بند ہو گئی ۔مجرموں کو سزا ہو گئی ۔

ایک ہفتے بعد، نشمیہ روزی کے گھر گئی۔ روزی نیند کی دوا کے زیرِ اثر گہری نیند میں تھی۔ کمرہ خاموش، صرف دیوار پر آویزاں ایک خاندانی تصویر جیسے گواہ تھی کسی ناقابلِ بیان صدمے کی۔

نشمیہ یونہی چلتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل تک گئی۔ وہاں، شیشے کے پیچھے دو کاغذ دبے تھے — ٹام کے نام انشورنس کی دو پالیسیاں۔ دونوں حادثے سے کچھ ماہ قبل ہی خریدی گئی تھیں۔ رقم… ہوشربا۔

نشمیہ کے ہاتھ کپکپانے لگے۔ دل نے پہلی بار سوال کو دوبارہ چھیڑا:
کیا واقعی دل رنگ نہیں دیکھتا؟ یا کبھی، دل بھی سودا کر لیتا ہے؟

چاند… جو روزی کے آنگن میں امید بن کر اترا تھا، اب گہنا چکا تھا ۔

 

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x