
چاچا شیدا بنیادی طور پر اچھا انسان تھا۔مگر دودھ کے کاروبار اور گاہکوں کے رویّے ایسے ہوتے بے دیدی کرنی ہی پڑتی تھی
تبھی جب اس کی روز کی گاہک لڑکی نے بڑی منت سے کہا کہ مجھے تھوڑا سا دودھ ادھار دے دو ۔بے شک میرا میاں نشئ ہے ۔مگر میں جلدی سارے پیسے تمہیں دے دوں گی
"کیسے دے دو گی "چاچا نے بے رخی سے پوچھا
"نشےکے پیسے ہوتے ہیں اس کے پاس بچے کے دودھ کے پیسے نہیں ہوتے ”
وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ جاتا
"پیسے تو ہوتے ہیں اس کے پاس مگر میں لیتی نہیں ہوں ”
اب رکنا شاید لازم تھا
"کیوں”؟
"حرام کی کمائی کیوں لوں "؟آنسو آنکھوں سے گالوں پہ ڈھلک آ ے۔
"عبداللّٰہ نام رکھا ہے تو عبداللّٰہ ہی بناؤں گی نا حرام کھلا کر روح کالی کر دوں اس کی”؟
چاچے رشید نے صافے سے چہرہ پونچھا جس پہ کوئی پسینہ نہیں تھا۔
نیلے دوپٹے کے پیچھے جھانکتی چاندی کی بالی اور کہنی سے پھٹی قمیض والے بازو میں پھنسی چند چاندی کی چوڑیاں بازو کے سامنے ماند پڑی ہوئی تھیں ۔
چاچے نے دودھ ڈالنے کے لیے تھیلی اٹھائی ۔”اماں حاجرہ کو جانتی ہے "؟وہ گلی کے کونے والے مکان میں رہتی ہے،”ادھیارے پہ بکریاں رکھتی ہے لوگوں کی دودھ بیچ کر آدھے پیسے بکریوں کے مالک کو دے دیتی ہے ۔
یہ چاندی بیچ کر ایک دو بکری خرید لے لوگ ذیادہ دن ادھار نہیں دیتے "چاچے نے دودھ کی تھیلی پکڑاتے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا.
"اورسن”چاچے کی آواز پہ وہ پلٹی ۔
"کہنی سے قمیض سی لینا بیٹی اور دیکھے بھالے بغیر کسی سے ادھار نہ مانگنا”





بہت عمدہ افسانچہ ۔ زرقا صاحبہ بہت عمدہ لکھتی ہیں۔