اُردو ادبافسانہ

چڑیا اور تنہائی کا دکھ/ فاطمہ شیروانی

چڑیا کے ننھے سے پر مختصر سی اڑان بھرنے کے بعد ایک بار پھر اسی کھڑکی کے سائے میں بیٹھ کر تنہائی کی سرگوشیاں سننے لگے تھے، جس کے کناروں پر زندگی نہیں موت کی آوازیں گونجتی تھیں۔ یہ کھڑکی پچھلے کئی روز سے اداسی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے جھانکتی دو آنکھوں سے چڑیا کو ایک عجیب سی عقیدت تھی۔ یہ آنکھیں آنسوؤں کی زبان میں جب بھی کوئی گیت گنگناتی تھیں، چڑیا کسی باادب مسافر کی طرح ان آنسوؤں کے سامنے جھک جایا کرتی تھی۔

چڑیا کے پاس اگر خوشی کے چند دانے ہوتے تو وہ اس کھڑکی کے کناروں پر ڈال دیتی، اور پھر اگر کچھ رنگ بھی ہوتے تو ان آنکھوں میں بھر دیتی۔ چڑیا کے پاس اگر محبت نام کا پانی ہوتا تو وہ اپنی چونچ میں یہ پانی بھر بھر کر کھڑکی کے تمام راستوں میں چھڑک دیتی اور پھر ان آنکھوں کو آواز دیتی کہ وہ کھڑکی کھول کر محبت کو اپنے اندر اتار لیں۔ مگر چڑیا کے پاس تو صرف ایک ننھا سا دل تھا جس کی دھڑکنیں اب خاموش رہنے لگی تھیں۔

چڑیا کا تمام تر وجود ایک آنسو بن گیا تھا۔ ہجر کے گیت گنگناتی یہ کھڑکی دن میں چند ایک بار ہی کھلتی تھی، ورنہ اکثر اس کے بند دریچوں سے اداس نظموں کی باس آتی تھی۔ کھڑکی کھلتے ہی چڑیا کمرے میں موجود تنہائی کی اکلوتی میز کے پاس جا کر بیٹھ جاتی۔ تنہائی کو بھی چڑیا سے انسیت ہو چلی تھی۔

تنہائی کے سفید بالوں اور جھریوں سے بھرے وجود میں صدیوں کی تھکن تھی۔ اداس آنکھیں کمرے میں موجود کیلنڈر کو کئی بار دیکھتی تھیں، مگر ان آنکھوں میں رنگ بھرنے والی تاریخ آ کر ہی نہیں دے رہی تھی۔ موبائل فون کی بیل بجتی ہی نہیں تھی۔ تنہائی نجانے کتنی بار ایک ہی نمبر ملاتی رہتی تھی مگر دوسری جانب سے کچھ ایسا کہا جاتا تھا جسے سننے کے بعد تنہائی کے ساتھ بیٹھے آنسو گرنے لگتے اور تنہائی کا پورا کمرہ ہی غم کی تصویر نظر آتا۔

ایک روز چڑیا نے دیکھا خوشی کی چند گھڑیاں دبے پاؤں کھڑکی کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی ہیں۔ اس روز کھڑکی کے کناروں پر زندگی کی آہٹیں سنائی دینے لگی تھیں۔ چڑیا کا دل بھی تنہائی کو مسکراتے دیکھ کر چہکنے لگا تھا۔ چند لمحوں کے لئے کھڑکی کھلی تو چڑیا نے دیکھا زندگی سے بھرپور دو آنکھیں تنہائی کے پہلو میں تھیں۔ تنہائی ایک ماں تھی اور اپنے وجود کے حصے کو اپنی بانہوں میں بھر کر تنہائی کی ذات کی تکمیل ہوگئی تھی۔

چڑیا کی آنکھیں ایک بار پھر عقیدت سے جھک گئی تھیں۔ خوشیوں کی ان گھڑیوں کی عمر بہت مختصر تھی۔ تنہائی کے کمرے کے در و دیوار ایک بار پھر اداسی کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ بہار اپنے تمام تر رنگوں سمیت رخصت ہو چکی تھی، خزاں نے ہر طرف اپنے پر پھیلانے شروع کر دیے تھے۔

چڑیا نے ان خزاں رسیدہ دنوں میں بھی کھڑکی کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ خزاں کی طویل ساعتوں میں چڑیا کھڑکی کے کناروں پر تنہائی کے آنسو چنتے چنتے اب بیمار پڑنے لگی تھی۔ چڑیا کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں۔ تنہائی کے بند دریچوں سے اٹھتی باس کے کرب کا بوجھ اب چڑیا کے وجود سے بہت بھاری ہونے لگا تھا۔ کھڑکی کے اندر سے اب اکثر کھانسی کی آوازیں آتی تھیں۔ یوں لگتا تھا کوئی کسی کو یاد کرتے کرتے اب تھکنے لگا ہے۔

تنہائی کے لئے بھی اب اپنے وجود کی تھکن کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو گیا تھا۔ تنہائی کے اندر چھپی مامتا اپنے وجود کی تکمیل چاہتی تھی، مگر تنہائی کا بازو اس کے دکھوں کی ڈھال دور کسی آسمان پر بہت اونچی اڑان کا لطف لے رہا تھا۔ اس کے پاس تنہائی کے اکیلے پن کو دور کرنے کا وقت نہیں تھا۔

تنہائی جو اپنے ہمسفر کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اپنے بیٹے کی راہ دیکھتی تھی، اندر کے خالی پن کا بوجھ اب اس کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں۔ وہ ایک سرد شام تھی۔ جاڑہ اپنے عروج پر تھا۔ سرد ہواؤں نے فضا پر ایک سکوت سا طاری کر رکھا تھا۔

ایسے عالم میں ایک ایمبولینس کھڑکی کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی۔ موت کی آواز اب کی بار سب سے بلند تھی۔ تمام تر در بند کھل چکے تھے۔ تنہائی کی بند سانسوں کو سفید کپڑے میں قید کر دیا گیا تھا۔

کھڑکی کے پاس ہی ایک چڑیا بھی مری پڑی تھی، جسے تنہائی کے دکھ نے مار دیا تھا۔

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x