وعدۂ ازل / ثمرین خان
وعدۂ ازل
تم مجھے وہیں ملنا —
جہاں خواب کی پہلی سانس
ابھی خالق کی آنکھ میں
نرگس کی طرح ٹھہری ہوئی تھی،
جہاں نیند
کسی گمنام خیال کی گود میں
بےنام سُروں کی لوری سنتی تھی۔
جہاں وقت —
کسی ساز کے خالی تار پر
خاموشی کی ایک دھیمی لرزش تھا،
اور فنا و بقا کے درمیان
ایک ایسا لمحہ —
جو ابھی خدا کی انگلی نہیں تھام پایا تھا۔
جہاں میں اور تم
نہ اسم تھے، نہ جسم —
بس آوازوں کے امکانی عکس،
اور بازگشت کی صورت
ایک دوسرے کی گمشدگی میں لپٹے ہوئے تھے۔
جہاں ازل کے آئینے پر
نقش ہونے سے پہلے
ہماری سانسیں
ایک ناگفتہ دعا کی مانند
خامشی میں ایک دوسرے کی ریاضت کر رہی تھیں —
جیسے کوئی دریا
دوسرے دریا کی تمنا میں
ریت پر بہنے کا خواب دیکھے۔
تم مجھے وہیں ملنا —
جہاں مٹی
کسی مفہوم کی تلاش میں سرگرداں تھی،
اور خمیر —
عشق کے پہلے لمس کو
اپنی ہڈیوں میں محسوس کر رہا تھا،
جہاں خدا
اپنے ہی تصور میں ٹھہرا
ہماری مشابہت پر
خاموش حیرت میں گم تھا۔
جہاں ہم —
اک ہی نور کے دو آہنگ،
اک ہی مٹی کی دو چبھن،
اک ہی حرف کی دو زبانیں تھے،
جو لفظ بننے سے پہلے
خامشی کی بانسری میں
ایک دوسرے کو سننے کی کوشش میں تھے۔
اور وہ مقام —
جہاں فرشتے تمہاری آنکھوں میں
میرا عکس پڑھتے تھے،
اور خامشی میں
ایک بےنام دعا
ہمارے بیچ سانس لیتی تھی۔
تم مجھے وہیں ملنا —
جہاں محبت
کسی نام، کسی صورت،
کسی انجام سے آزاد تھی —
بس ایک لطیف لرزش،
ایک ناگہانی مہک —
خدا کے دل میں چھپی
وہ روشنی،
جو ہم بننے سے پہلے
ایک دوسرے میں طلوع ہو چکی تھی




