دن بھری راتیں / حمزہ ابن وصی

رات دن کے لباس میں خلقت کی انکھوں سے ٹکراتی رہی۔ رات کی حالتِ مجہول نے اندھیرے کو اجنبی کردیا۔ رات اندھیرے کی شکل دیکھنے کو ترستی رہی۔ دن رات کے جسم سے ایسا لپٹا، اندھیرا روشنی میں تحلیل ہوگیا۔
سورج چاند کی زندگی میں غروب ہوتا نہیں ، ایسا تن گیا کہ چاند اپنے وجود کے استخراج پر روتا رہا، چاند دیدنہ شنید ہوگیا۔ ایسا لگتا دن کی غذا رات اور سورج کی غذا چاند بن گیا۔ دن تھا کہ ڈوبتا ہی نہیں، رات تھی جو ہوتی ہی نہیں۔ روشنی کے بطن سے جنے ماحول نے ایسا ظلم ڈھایا کہ رات کو بھی یکسر دن بنادیا اور اندھیرا آرزو کی صورت رہ گیا۔ اب سورج کے طلوع ہونے کے بجائے عتیق چاند کے ابھرنے کی آرزو باقی رہ گئی ۔ دن کی فروکشی نے جیسے رات کی خودکشی کا سامان کردیا۔
رات سے لاداشتی اور اندھیرے کو مقطوعی تصور بخشنے کی اصل ابتدا بشر سے استقرار پائی۔ سورج کو سر پر تانے رکھنے کا بندو بست بشر نے اپنے ہاتھ لے لیا ۔ بشر نے دن بھر کی یادداشت اور معاملات کی زنجیروں کو جیسے پازیب بنالیا۔ بعد از امر معاملات کی زنجیروں پر وزنی رسّے باندھ کر اس کا ایک سرا سورج کو دان دیا۔ دن بھر کے معاملات کی زنجیریں چاہے معاشی ہوں، سماجی ، رومانوی ہوں، غیر رومانوی رات میں نشو پائیں، تیقن کی بنا پے دن بھری راتوں کا جنم ہوا۔ اس طرح دن کی روشنی استبداد سے رات کو نگل گئی۔ اب تو بس سورج ہی رہ گیا۔یادداشت، معاملاتی زنجیریں سورج کی دوست بن گئیں۔ ان زنجیروں پر رسوں کا اشتداد جن کا ایک سرا خلقت سے وابست اور دوسرا سرا سورج کا پابند۔ سورج کے ہاتھوں چاند مفتوح ہوگیا۔ سورج اب رات کا حصہ لے چکا۔ نقشوں پر سے مہتاب مٹادیے گئے۔
کبھی کبھار ایسا لگتا کہ رات کی آمد پھر ہوگی، ایک نئے چاند کی رات ہوگی، مگر اتنے غم جو دن کی روشنی میں جھیلے، ان غموں کو رات میں سوچا گیا۔ سوچ سوچ کر سورج کی غذا چاند کو بنادیا۔ رات میں بھی دن نبھایا گیا اور روشنی اندھیرے کو چباتی رہی۔کیا اب روشنی کے بطن سے اندھیرا ملے گا،اور سورج واپس چاند لوٹادے گا؟
دیواروں سے جھانکتا سورج ،
دروازوں سے جھانکتا سورج،
غموں سے جھانکتا سورج،
محبت سے جھانکتا سورج،
منافرت سے جھانکتا سورج،
جبلت سے جھانکتا سورج،
معاش سے جھانکتا سورج،
سماج سے جھانکتا سورج ،
زرندگی سے جھانکتا سورج،
مفلسی سے جھانکتا سورج،
جنگوں سے جھانکتا سورج،
امان سے جھانکتا سورج،
صحراؤں سے جھانکتا سورج،
ابحار سے جھانکتا سورج،
امواج سے جھانکتا سورج،
کناروں سے جھانکتا سورج،
آنکھوں سے جھانکتا سورج،
کانوں سے جھانکتا سورج،
دل سے جھانکتا سورج،
دماغ سے جھانکتا سورج
زمیں سے جھانکتا سورج،
آسماں سے جھانکتا سورج،
روشنی اور اندھیرے کی کوئی حقیقت نہیں رہی۔ بس رہ گئے تو دن کے مستحضرات ، دن کے مجہولات ، دن کے مضمرات ، دن کے ملفوظات ، دن کے مقبوضات، دن کے مقروضات، معاملات، مستغرقات ، مفروضات، مشتملات، مشہودات، موجودات،ملبوسات،مندرجات۔
جیت گیا سورج اب ہمیشہ طلوع رہے گا ، ہار گئی رات ، روشنی میں گم ہوگئی۔ چاند ایک لاش جو بے کفن منجمد ، سورج اک مورت جس کا جاری ہر دم ورد۔
دن کے بطن سے جنم لیے وابستِ معاشیات کے غم ، وابستِ احساسات کے غم، وابستِ معاملات کے غم رات میں اوڑھ لیے گئے۔ دن شیش ناگ کی شکل رات سے لپٹ گئے، اور چاند جیسے آسمان سے کوچ کرگیا۔ یہ فلسفۂ استردادیت کئی ایک نے محسوس کیا اور اندھیری رات کو سورج سے طلب کیا، سورج کی روشنی سب کے زاویے نگل گئی اور دنیا میں نیا نصاب رائج ہوا۔
پھر مریضِ مخصوصات مجبوراً عبد الشمس بن گئے۔ سورج جیت گیا اور چاند ہار گیا ۔ چاند کو در بدر کر انام نے بھی جیسے روشنی کا روپ دھار لیا۔ جب کوئی حل ہی نہیں نکل پایا تو اسی کو سچائی مان لیا۔ جھوٹ نے پھر دن میں سچائی کی شکل کو چرالیا ، بچشم و سر اس حملے کو سب نے وقت کی ضرورت مان لیا۔
حقیقت سے بھرپور حق کو پھر سہما ہوا پایا گیا۔ حق و باطل کی لڑائی میں سورج نے باطل کا ساتھ دیا۔ چاند تو خیر ہجرت کرگیا، حق بھی پھر روپوش ہوگیا ، اس طرح بطلان کی نمائش لگائی گئی۔ دن بھری راتوں کی کمائی کھائی گئی۔
الامر جھوٹ اتنا مضبوط ہوا کہ کسی سچ سے کم نہ تھا ، دن رات ، روشنی اندھیرے کی تفریق ختم ہوئی۔ سچ کیا جھوٹ کیا ، حق اور باطل لامکاں ہوئے ، غیر تصوراتی دنیا میں سب پھر خوش رہنے لگے ، دن بھری راتوں کو اپنی ضروریات کہنے لگے۔
ایک دن آسمان پر کالی گھٹا چھانے لگی اور سورج کی روشنی کے درمیاں آنے لگی۔ سورج نے زمین پر اترنے کی کوشش بھی کی ، مگر سورج کی تاب معدوم ہونے لگی، اس طرح دمدماتا سورج بے تاب ہوگیا اور کالی گھٹا نے زمیں کو بے سایہ کردیا۔ سورج گھٹا کے عقب مخفیات بن گیا ، کالی گھٹا نے انسانوں کو دیکھ آنسو بہائے ، لوگوں نے فطرت پے مبنی ترانے گنگنائے، یہ کچھ دیر کے لمحات تھے ایسے ، زندگی کا دل بھی دھڑکتا ہو جیسے۔ خلقت گھٹا سے مانوس ہوگئی مگر گھٹا کے برسنے پر زمین پانی نگل گئی۔ پھر گھٹا بھی آہستہ آہستہ اثراتی ہوگئی۔ ایک بار پھر سورج زمین پر حملے کرنے لگا اور دن کا نظام پھر سے چلنے لگا۔ رات کے منتظر اندھیرے کو روتے رہے اور بشر دن بھری راتوں کے غلام ہوتے گئے۔
” کچھ لوگوں کے مطابق ایسا کچھ بھی نہیں ، کچھ لوگوں کے مطابق ایسا کچھ تو ہے، کچھ لوگوں کے مطابق ایسا دیکھا گیا، کچھ لوگوں کے مطابق یہ سب سوچا گیا”
حمزہ ابنِ وصی




