بلاگ

عورت زبان کی وجہ سے مار کھاتی ہے / نبیلہ مشتاق

پاکستانی معاشرہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ دنیا ترقی کی منزلیں طے کر کے مساوات اور انصاف کی بات کر رہی ہے، مگر ہمارے ہاں عورت اب بھی سب سے آسان ہدف سمجھی جاتی ہے۔ ہراسانی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، چاہے وہ سڑک پر ہوں، بازار میں، تعلیمی اداروں میں یا دفاتر میں۔ لیکن اصل مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ہراسانی ہو رہی ہے بلکہ یہ ہے کہ جب کوئی عورت آواز بلند کرتی ہے تو سب سے پہلے اسی پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے قصوروار عورت خود ہی ہے، اور یہی رویہ ہمارے معاشرتی زوال کی اصل تصویر ہے۔

وکٹم بلیمنگ یعنی مظلوم کو ہی مجرم ٹھہرانا ہمارے معاشرے کی سب سے خوفناک بیماری ہے۔ اگر کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو سب سے پہلے اس کے لباس، اس کے اندازِ گفتگو اور اس کی حرکات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سوال یہ نہیں اٹھایا جاتا کہ مجرم کون تھا اور اس نے کیوں کیا، بلکہ سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ عورت وہاں کیوں گئی؟ کیا پہن رکھا تھا؟ کس کے ساتھ تھی؟ گویا عورت کو قصوروار ثابت کرنے کے لیے پورا معاشرہ کٹہرے میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ رویہ عورت کو انصاف سے دور کر دیتا ہے اور مجرم کو مزید طاقتور بنا دیتا ہے۔

اس رجحان کی جڑیں ہماری تاریخ اور سماجی ڈھانچے میں گہری پیوست ہیں۔ برصغیر کے معاشرے میں صدیوں سے عورت کو مرد کی ملکیت سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس کا کردار، اس کی آزادی، اس کی عزت سب کچھ مرد کے نام سے منسلک کر دیا گیا۔ جب عورت اپنی رائے دیتی ہے یا اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتی ہے تو معاشرہ اسے بدزبان، مغرور یا باغی قرار دیتا ہے۔ اور جب وہ خاموش رہتی ہے تو مظلوم اور کمزور کہلاتی ہے۔ یوں عورت ہر حال میں الزام کی زد میں رہتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہراسانی کبھی عورت کی بدزبانی یا لباس کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ یہ ہمیشہ ہراساں کرنے والے کی نیت اور ذہن کی پیداوار ہے۔ اگر عورت پر الزام لگانے سے مسئلہ حل ہو سکتا تو دنیا کی تاریخ میں عورتوں پر ہونے والا ظلم کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ مسئلہ اس سوچ کا ہے جو عورت کو انسان نہیں بلکہ کمتر مخلوق سمجھتی ہے، جو اس کے وجود کو سوالیہ نشان بناتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک اور خطرناک پہلو عورت کے خلاف دیے جانے والے بیانات ہیں۔ سیاستدان، مذہبی رہنما اور عوامی شخصیات جب عورت کو کمزور یا فتنہ قرار دیتے ہیں تو یہ رویہ عام لوگوں کے لیے جواز بن جاتا ہے۔ پھر جب کوئی عورت ہراسانی کا شکار ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے “اسی نے کچھ کیا ہوگا، ورنہ ایسا کیوں ہوتا؟” یہ جملہ دراصل ظلم کو جواز فراہم کرتا ہے اور مجرم کے حوصلے بلند کرتا ہے۔

یہ رویہ نہ صرف عورت کو انصاف سے محروم کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو عدم تحفظ میں دھکیل دیتا ہے۔ کیونکہ جب انصاف عورت کو نہیں ملتا تو کل کسی اور مظلوم کو بھی نہیں ملے گا۔ وکٹم بلیمنگ صرف عورت کا مسئلہ نہیں، یہ انصاف کے نظام کی ناکامی کی علامت ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس رویے کو کیسے بدلا جائے؟ سب سے پہلے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عزت اور احترام کسی کے لباس یا الفاظ سے منسلک نہیں بلکہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہراسانی کرنے والا ہمیشہ مجرم ہے، چاہے عورت کیسا بھی لباس پہنے یا کہاں بھی موجود ہو۔ یہ سوچ نصاب، میڈیا، گھروں اور اداروں میں مسلسل دہرانے کی ضرورت ہے۔

دوسرا قدم یہ ہے کہ میڈیا کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ اکثر ڈرامے، فلمیں اور سوشل میڈیا مواد عورت کو قصوروار دکھاتے ہیں یا اس کی مظلومیت کو ایک تماشا بنا دیتے ہیں۔ میڈیا کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ عورت کو الزام دینے کے بجائے اس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔

تیسرا قدم قانون کا ہے۔ قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہراسانی کے کیسز میں انصاف کی رفتار اتنی سست ہے کہ عورت دوبارہ آواز اٹھانے سے ڈرتی ہے۔ ہمیں فوری اور مؤثر انصاف کی ضرورت ہے تاکہ عورت کو یہ احساس ہو کہ اگر وہ بولے گی تو اس کے ساتھ کھڑا ہونے والا نظام موجود ہے۔

سب سے اہم قدم شعور کی بیداری ہے۔ ہمیں گھروں سے یہ تعلیم دینی ہوگی کہ عورت کمزور نہیں، وہ برابر کی انسان ہے۔ اسے بولنے، چلنے اور جینے کا ویسا ہی حق ہے جیسا کسی مرد کو ہے۔ جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی، وکٹم بلیمنگ کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔

آج پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ باہر کے دشمنوں سے نہیں بلکہ اپنی اندرونی سوچ سے ہے۔ ایک سوچ جو عورت کو الزام دیتی ہے، اسے بدزبان یا فتنہ قرار دیتی ہے، اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑکتی ہے۔ اگر ہم نے یہ سوچ نہ بدلی تو ہراسانی کے کیسز بڑھتے رہیں گے اور معاشرہ مزید زہریلا ہوتا جائے گا۔

یہ وقت ہے کہ ہم فیصلہ کریں۔ کیا ہم مجرم کے ساتھ ہیں یا مظلوم کے ساتھ؟ کیا ہم عورت کو الزام دیتے رہیں گے یا اسے انصاف دلائیں گے؟ یہ سوال صرف عورت کا نہیں، پورے معاشرے کا ہے۔ اور اس کا جواب ہمیں آج دینا ہوگا، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی

Author

Related Articles

Back to top button