نظم : ڈیمینشیا/ نظم نگار : اویس ضمیر

ڈیمینشیا
آ گئے تم؟
کئی دن سے رَہ تک رہی تھی تمہاری۔۔۔
کہو حال احوال کچھ
کل بھی آئے تھے تم؟
روز آتے ہو کیا؟ واقعی؟
کچھ بُرا مت منانا مِرے پوچھنے کا
مگر کیا کروں اِن دِنوں
بھولنے لگ گئی ہوں
مجھے ایسا لگتا ہے جیسے
مِرے ذہن میں
بِن خد و خال کے دھندلے سائے بسے ہوں
خبر کچھ نہیں کون آیا گیا
کیا کہا۔۔۔
کیا کِیا۔۔۔
اور سوچوں بھی تو
یاد کی ڈور مِلتے ہوئے بھی کہیں
چھوٹ جاتی ہے مجھ سے۔۔۔
چلو تم کہو
آج کس سے ملاؤ گے مجھ کو؟
ارے واہ! البرٹ کامو*
مِرا فیورٹ!
خوب تحفہ دِیا ہے!
کتابوں سے رغبت بہت ہے مگر آج کل
اِک ہی شے کو
کئی بار پڑھ کر بھی پڑھتی نہیں
ذہن گویا مِرا ایک بوجھل خلا
جس کی پہنائیوں نے مجھے مضمحل تر کِیا ہے
چلو یہ بھی اچّھا کِیا آ گئے تم
دو اِک پل مِرا دل بہل جائے گا۔۔۔
اچّھا یہ تو بتاؤ
وہ آیا نہیں؟
فون آیا کیا اُس کا؟
مِرے حال کی کچھ خبر ہے اُسے؟
ٹھیک کہتے ہو شاید
اُسے لوٹ کر واپس آنا نہیں
ورنہ جاتا ہی کیوں۔۔۔
رہنے دو۔۔۔
تم بتاؤ مِرے واسطے تم یہ کیا لائے ہو؟
"اجنبی”؟**
کیا نئی آئی ہے۔۔۔
کون البرٹ کامو؟
بھلا کیا کہا؟
میری عہدِ جوانی کی ہے!؟
ہائے مَیں بھی جواں تھی کبھی
کتنے برسوں پہ پھیلا ہُوا ہے یہ لمحہ
جو جھلکا ابھی ذہن میں
تاریں ٹکرا رہیں ہیں۔۔۔
رمق برقی رَو کی کہیں
اب بھی نیورونز میں ہے دبی۔۔۔
وہ کیا ہے کہ مَیں
بھولنے لگ گئی ہوں
ہر گھڑی دو گھڑی
ایک تکرار میں خود کو پاتی ہوں مَیں
بھول جاتی ہوں مَیں
پھر بھی ہنستی ہوں کتنا !
چلو یہ کہو
فون آیا کیا اُس کا ؟۔۔۔ خط کوئی؟
فون شاید بجا یا مِرا وہم تھا؟
خیر چھوڑو
یہ کیا پڑھ رہے ہو؟
یہ میرے لیے لائے ہو؟
مختصر لگ رہی ہے بظاہر یہ لیکن۔۔۔
خبر کیا کہ انجام تک
مَیں پہنچ بھی سکوں گی کبھی
سچ کہوں تو
مجھے خالی اوراق بھی
پہروں اُلجھائے رکھتے ہیں اَب۔۔۔
بھول جاتی ہوں سب
ساعتوں کے نہ تھمنے کی میعاد ہے
ناں ہی پہروں گزرنے کا احساس ہے
خیر اپنی سناؤ
مِری جھینپ کرنا ذرا درگزر
اور یہ تو بتانا
بھلا نام کیا ہے تمہارا
بہت روز کے بعد آئے ہو شاید
تو کیا وہ بھی آئے گا مِلنے؟
نہیں؟
کَے برس ہو گئے؟
واقعی ؟
کیا کروں۔۔۔
اب بھی اُلجھی ہوں شاید پرانے کسی وقت میں
حال و ماضی کی کوئی بھی سرحد نہیں ذہن میں
خیر تم کونسا ناولٹ لائے ہو
"اجنبی”!!
خوب ہو گا یقیناً
مگر نام کامو کا لیتے ہی جو
ذہن کے دشتِ ویران میں اِک پریشاں بگُولا اُٹھا
سوچتی ہوں
مکمّل اِسے کر نہ پاؤں بھی تو
شاید اچّھا ہی ہے۔۔۔
(اویس ضمؔیر)
*Albert Camus
**The Stranger




