اُردو ادبافسانہ

مکافات عمل / الماس شیریں

زہرا کی آنکھیں آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے فریاد کر رہی تھی ۔
اس کا وجود بے حس و حرکت پڑا تھا۔
جب وہ کسی کو دیکھتی تو اس کی نظریں دیکھ کر دل دہل جاتا تھا۔
زہرا ایک جوائنٹ فیملی میں رہتی تھی ۔
اس کی ایک بڑی بہن بھی تھی۔
جس کی شادی اس کے تایا ذاد ذیشان سے ہوئی تھی۔
ذیشان شروع سے ہی ایسا تھا۔
ہر لڑکی کو گھور گھور کے دیکھنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔
آفس سے آنے کے بعد وہ بڑے برامدے میں بیٹھ جاتا۔
کسی کو بھی اس کے یہاں بیٹھنے سے فرق نہیں پڑتا تھا۔
مگر زہرہ کو پڑتا تھا۔
وہ جان بوجھ کر زہرا سے بات کرنے کی کوشش کرتا ۔
کبھی چائے کبھی پکوڑے اور کبھی کوئی خاص ڈش کی فرمائش کر دیتا۔
زہرہ کو ذیشان کی آنکھوں سے خوف آتا تھا ۔
ذیشان ایسے دیکھتا جیسے سالم نگل جائے گا۔
گھر والے کہتے کوئی نہیں بھائی ہے۔ اس کی بات مان لیا کرو۔
زہرا گھر والوں کو کیسے بتاتی کہ ذیشان کی نیت صحیح نہیں ہے۔ گھر والے کہتے بہنوئی ایسے مذاق کرتے ہیں۔ مگر زہرا کو عجب احساس ہوتا تھا۔ ذیشان کے سامنے وہ اپنے اپ کو محفوظ نہیں سمجھتی تھی ۔اللہ نے عورت کو ایک حس زیادہ دی ہے۔ زہرا ذیشان کی نظریں پہچان رہی تھی۔ ہاتھ پکڑنا تو اب اس کا معمول بن گیا تھا۔ زہرا بہت بے چین اور پریشان تھی۔
وہ اپنے احساسات کسی کو نہیں بتا سکتی تھی۔
زہرا بہت حسین تھی۔ جو دیکھتا بس فدا ہو جاتا ہے۔ ایف اے میں ہی اسکے رشتے آنے شروع ہو گئے تھے۔
ذیشان بر ملا کہتا کہ مجھے کوئلہ دیا ہے۔
زہرا سے میری شادی کیوں نہ کی سب اس بات کو مذاق سمجھتے۔
زہرا گرمی سردی اتنی بڑی چادر میں خود کو لپیٹ کے رکھتی مگر شیطان بھی کبھی انسان بنا ہے۔
زہرا کے پیپر تھے۔ وہ بہت جلدی گھر آگئی۔
امی اور باجی ساتھ والی کے گھر افسوس کے لیے گئی تھی۔
گھر میں ملازمہ رخسانہ تھی۔ زہرا نے کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں آگئی۔
وہ کپڑے بدل کر لیٹ گئی زہرا نے سوچا دو تین گھنٹے کی نیند لے کر شام کو تروتازہ ہو کر پڑھوں گی ۔
یہ سوچ کر وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
اچانک اسے ایسا لگا کہ کوئی بستر پر بیٹھا ہے۔ زہرا سمجھی کہ امی ہوں گی۔
جب سخت ہاتھوں کی اس کے جسم پر سرسراہٹ ہوئی تو وہ جھٹکے سے اٹھی تو سامنے ذیشان شیطان کے روپ میں کھڑا تھا۔ زہرا رخسانہ کو آوازیں دینے لگی مگر وہ شیطان اپنا پورا انتظام کر چکا تھا ۔گھر میں سوائے زہرا اور ذیشان کے کوئی نہ تھا ۔زہرا نے اپنے اپ کو چھڑوانے کی بہت کوشش کی مگر ذیشان اس وقت جانور بن چکا تھا۔ وہ معصوم کلی اس جانور کے آگے ہار گئ۔
اس درندے نے ایک معصوم لڑکی کی زندگی تباہ و برباد کر دی ۔وہ سسکتی رہی گڑگڑاتی رہی پر وہ حیوان انسان نہ بنا اچانک باجی اور امی آگئں ذیشان زہرا کے کمرے سے تیزی سے نکل گیا۔
امی اور باجی سکتے کی حالت میں کھڑی تھی ۔
اچانک امی جلدی سے زہرا کی طرف بڑھیں اور اسے سنبھالا وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ امی نے زہرا کے منہ پر ہاتھ دے دیا ۔اور کہا بالکل چپ یہ بات یہاں سے باہر نہ نکلے نہیں تو بہت رسوائی ہوگی۔
باجی خاموش بت بن گئی ایسے جیسے گھر میں کسی کی میت پڑی ہو زہرا بالکل چپ ہو گئی تھی ۔نہ ہستی نہ بولتی کھانا دے دو تو کھا لیتی نہیں تو بھوکی بیٹھی رہتی زندہ لاش بن گئی تھی۔ زہرا کی آنکھوں میں دکھ درد اذیت فریاد سب کچھ تھا۔
باجی چپ چاپ ذیشان کے کام کرتی رہتی کچھ نہ کہتی۔
زہرا کی خاموش فریاد نے عرش کو ہلا دیا۔
ذیشان موٹر سائیکل سے پھسلا
ہسپتال جانے پر معلوم ہوا کہ وہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہو چکا ہے۔
معمولی سا ایکسیڈنٹ تھا۔ مگر اللہ نے ذیشان کو اسی دنیا میں دکھانا تھا ۔
کہ گناہ گار کی پکڑ اسی دنیا میں ہوگی۔ باجی خاموشی سے اس کی خدمت کرتی رہی  تھی۔ وہ بستر سے اٹھنے کے لئے باجی کا محتاج ہو چکا تھا۔

.

. . .

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x