غزل
غزل / ہم دیے ہیں مگر بجھے ہوئے ہیں / علشبہ رزاق
غزل
ہم دیے ہیں مگر بجھے ہوئے ہیں
اس لیے طاق پہ دھرے ہوئے ہیں
ایک ہم ہی اداس ہیں ورنہ
پھول چاروں طرف کھلے ہوئے ہیں
ذمہ داری کا بوجھ تھا سر پر
وقت سے پہلے ہم بڑے ہوئے ہیں
میں سنورتی نکھرتی رہتی ہوں
مجھ سے موسم سبھی ملے ہوئے ہیں
اس کی آمد بہار لائی ہے
مدتوں بعد ہم ہرے ہوئے ہیں
صبحِ روشن کے بوسے کی خاطر
کچھ دیے شام سے جلے ہوئے ہیں
اس میں کچھ اپنا پن لگا مجھ کو
جیسے ہم پہلے بھی ملے ہوئے ہیں




