غزل / اجنبی ہے وہ مگر یار بھی لگتا ہے مجھے/ فیاض بوستان
غزل
اجنبی ہے وہ مگر یار بھی لگتا ہے مجھے
ایک دروازہ جو دیوار بھی لگتا ہے مجھے
مدتوں میں بھی نہیں لگتا کبھی زخمِ گریز
اور اک شب میں کئی بار بھی لگتا ہے مجھے
نظرانداز بھی کر دیتا ہے وہ شخص کبھی
اپنا ہونا کبھی بے کار بھی لگتا ہے مجھے
جتنی دلچسپی دکھاتا ہے مسیحا میرا
تھوڑا تھوڑا مرا بیمار بھی لگتا ہے مجھے
لوگ جو تیرا برا چاہتے ہیں شہزادی
ان میں سے اک ترا سالار بھی لگتا ہے مجھے
شاہزادی مجھے لگتا ہے دلاسہ تیرا
شاہزادی ترا رخسار بھی لگتا ہے مجھے
اپنے جذبات چھپانے پہ بھی شرمندہ ہوں
اور جھوٹا ترا انکار بھی لگتا ہے مجھے
بات یوں ہے وہ مرا مرہم تنہائی ہے
وہ بھلے در پئے آزار بھی لگتا ہے مجھے
کبھی محض آنکھیں بچھا لیتا ہوں تیری رہ میں
اور کبھی کم مرا گھر بار بھی لگتا ہے مجھے
تیرا ان حالوں مرے ساتھ گزارا کرنا
عشق بھی لگتا ہے ایثار بھی لگتا ہے مجھے




