غزل
غزل / وہ سر سے پاؤں تک ہے غضب سے بھرا ہُوا / آفتاب حسین
غزل
وہ سر سے پاؤں تک ہے غضب سے بھرا ہُوا
مَیں بھی ہُوں آج جوشِ طلب سے بھرا ہُوا
شورش مرے دِماغ میں بھی کوئی کم نہیں
یہ شہر بھی ہے شور و شغب سے بھرا ہُوا
ہاں ، اے ہوائے ہجر ، ہمیں کچھ خبر نہیں
یہ شیشۂ نشاط ہے جب سے بھرا ہُوا
ملتا ہے آدمی ہی مجھے ہر مقام پر
اور مَیں ہُوں آدمی کی طلب سے بھرا ہُوا
ٹکراؤ جا کے صبح کے ساغر سے آفتاب !
دِل کا یہ جام ، وعدۂ شب سے بھرا ہُوا



