خبریں

اجے لالوانی قتل کیس: خاندان ساڑھے چار سال بعد بھی انصاف کا منتظر/ اردو ورثہ

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافیوں کے خلاف تشدد اور ان کے قاتلوں کو سزا دلوانے کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ سکھر کی تحصیل صالح پٹ سے تعلق رکھنے والے صحافی اجے لالوانی کو 17 مارچ 2021 کی شام فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا، جن کا خاندان اب بھی انصاف کا منتظر ہے۔

اجے لالوانی مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے رپورٹنگ کرتے تھے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں 2023 میں انہیں تمغہ امتیاز (بعد از مرگ) سے نوازا گیا۔

اجے کے بھائی امیت لالوانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’ساڑھے چار سال گزر گئے مگر ہم اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ میرے بھائی کو مقامی بااثر شخصیات کی کرپشن اور ظلم کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں مسلسل دھمکیاں ملتی رہیں۔ قتل سے پہلے ان پر جھوٹی ایف آئی آرز درج کروائی گئیں تاکہ انہیں دباؤ میں لایا جا سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ عدالت سے بری ہونے کے چند روز بعد ہی اجے کو شہر کے بیچ چوراہے پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

امیت کے بقول: ’ایف آئی آر درج کروانے میں بھی رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ سول سوسائٹی اور صحافی برادری کے احتجاج کے بعد پانچ ملزمان گرفتار ہوئے، مگر چار ضمانت پر رہا ہیں اور ان میں سے تین مفرور ہیں۔ اب صرف ایک شخص عدالت میں پیش ہو رہا ہے۔‘

امیت کے مطابق انہیں اور ان کے خاندان کو قتل کے بعد بھی مسلسل دباؤ، فائرنگ اور کاروباری نقصانات جیسے خطرات کا سامنا رہا، جس کے باعث وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر سکھر منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔

ان کے بقول: ’ہم انصاف کے لیے اب بھی کوشاں ہیں۔ صدارتی ایوارڈ ایک اعزاز ضرور ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایوارڈ قاتلوں کو گرفتار کروا سکتا ہے؟‘

اجے لالوانی کا مقدمہ لڑنے والے وکیل ایڈووکیٹ زبیر احمد راجپوت نے بتایا کہ کیس انسداد دہشت گردی عدالت سکھر میں زیرِ سماعت ہے۔

زبیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ساڑھے چار سال میں ایک سو سے زائد پیشیاں ہو چکی ہیں مگر ملزمان کے تاخیری حربوں کے باعث مقدمہ مطلوبہ رفتار سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

’عدالت نے گرفتار پانچ میں سے چار ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا، جس پر ہم نے سندھ ہائی کورٹ میں ان کی ضمانتوں کی منسوخی اور کیس کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت چلانے کی درخواست دائر کی ہے تاکہ انصاف میں مزید تاخیر نہ ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی عام شہری کا نہیں بلکہ ایک ایسے صحافی کا کیس ہے، جو عوام کی آواز بنا اور اسی کردار کی سزا آج تک بھگت رہا ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی سیکرٹری فنانس لالا اسد پٹھان نے کہا کہ 2000 کے بعد سے صرف سکھر ڈویژن میں ایک درجن سے زائد صحافی قتل کیے جا چکے ہیں، مگر کسی ایک کیس میں بھی انصاف نہیں ہو سکا۔

ان کے بقول: ’جان محمد مہر کا قتل اس کی تازہ مثال ہے، ایک سال احتجاج کے باوجود قاتل گرفتار نہیں ہوئے۔‘

لالا اسد کے مطابق: ’ریاستی اداروں، سیاسی حلقوں، مذہبی تنظیموں اور علیحدگی پسند گروہوں، سب کی طرف سے صحافی دباؤ اور خطرے میں ہیں۔ یہ وہ نام نہاد چوتھا ستون ہے، جسے دہائیوں سے کمزور کیا جا رہا ہے۔ اگر واقعی ریاست اسے ستون سمجھتی تو اس کے ساتھ کھڑی ہوتی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کافی نہیں، بلکہ عملی سیاسی اور ادارہ جاتی عزم کی ضرورت ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کی جانب سے جاری کردہ سال 2025 کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں کے خلاف جرائم میں استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر بتایا گیا کہ گذشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں میڈیا پر حملوں اور دھمکیوں کے واقعات میں 60  فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ صرف رواں برس کے دوران 94  کیسز میں صحافیوں، بلاگرز اور میڈیا ورکرز کو دھمکیوں، حملوں یا قانونی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کے مطابق: ’پاکستان میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے مقدمات میں سزا کی شرح تقریباً صفر ہے۔ صحافیوں کے قتل کے 53 سے زائد کیسز میں سے صرف دو میں مجرموں کو سزا ملی، جس سے عدم سزا کا تاثر مزید گہرا ہوا ہے۔‘

ان کے بقول انسدادِ جرائم کمیشن اور جرنلسٹس پروٹیکشن بل کے نفاذ کے باوجود صوبائی سطح پر ان قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

ادھر حکومت سندھ کی ترجمان سعدیہ جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کمیشن قائم اور فعال ہے۔

سعدیہ جاوید کے بقول: ’2023 میں کمیشن نے 17 کیسوں کی سماعت کی، جن میں سے 13 پر کارروائی مکمل کر کے متاثرہ صحافیوں کو ریلیف دیا گیا جبکہ رواں سال سات کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے تین نمٹا دیے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات پر غور کر رہی ہے۔‘

مقامی صحافی اور صالح پٹ یونین آف جرنلسٹس کے صدر علی گوہر شمبانی کہتے ہیں کہ صالح پٹ سیاسی اثرورسوخ کے لحاظ سے حساس علاقہ ہے، یہاں صحافیوں کے لیے آزادانہ رپورٹنگ آسان نہیں۔

بقول علی گوہر: ’اجے لالوانی ان چند آوازوں میں سے ایک تھے جو کھل کر مقامی مسائل پر بولتے تھے۔ ان کے قتل نے اس خطے کے صحافیوں میں خوف کی فضا مزید گہری کر دی ہے۔‘

اجے لالوانی کے بھائی امت لالوانی کے مطابق انصاف کی تلاش ابھی باقی ہے۔ ان کے بقول: ’ہم اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔‘


Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x