اُردو ادب

خانہ بدوش / صائمہ صمیم

رات کے بطن سے ایک خاموشی جنم لے رہی تھی۔ایسی خاموشی جو سناٹے کی نہیں بلکہ اس کی سوچ کی تھی۔کمرے کی کھڑکی کھلی تھی۔اور باہر سڑک پر کبھی کبھار کسی گاڑی کے گزرنے سے ہوا کا ہلکا سا ارتعاش اندر تک محسوس ہوتا۔
ارحم میز کے قریب بیٹھا سگریٹ سلگا رہا تھا۔ دھوئیں کے ساتھ اس کی سانس بھی جیسے کسی ان دیکھے بوجھ سے بھری ہوئی تھی۔
کمرے میں ہلکی زرد روشنی پھیلی ہوئی تھی جو دیواروں پر تھر تھراتی ہوئی سایوں کی شکل میں ناچ رہی تھی۔
کچھ تصویریں میز پر بکھری پڑی تھیں۔
وہ چہرے جو کبھی اس کی زندگی کا حصہ رہے تھے۔
حنا کا معصوم حسن،نیہا کی مسکراہٹ،صبا کی آنکھیں،مریم کا ادھورا خط اورایک خالی فریم جس میں کبھی ایک تصویر تھی۔مگر اب محض اس میں یاد باقی تھی۔
ارحم نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا،اور دھیرے سے کہا:
”عجیب بات ہے۔۔۔ہر چہرہ،ہر لمس،ایک لمحے کی روشنی بن کر رہ گیا۔“
وہ تنہا نہیں تھا مگر خود سے بھی کٹا ہوا تھا۔
محبتیں اس کے گرد آتی رہیں جیسے پروانے چراغ کے گرد منڈلاتے ہیں۔
مگر وہ خود ہمیشہ چراغ سے کچھ فاصلے پر رہا۔
قریب اتنا کہ روشنی محسوس کرے اور دور اتنا کہ جلنے سے بچا رہے۔
کہتے ہیں بچپن میں جو خلا ملتا ہے وہ پوری زندگی عمر کے پیچھے چلتا رہتا ہے۔
ارحم کا بچپن بھی خلا سے بنا تھا۔ایک خاموش باپ،جو کم بولتا اور زیادہ سوچتا تھا،اور ایک حساس ماں جو اپنے خوابوں کو گھر کے درو دیوار میں دفن کرتی رہی۔
ارحم اکثر راتوں کو جاگتا،اور صحن میں بیٹھا آسمان دیکھا کرتا۔اسے ایسا لگتا جیسے ستارے سفر میں ہیں۔۔۔کسی سمت جا رہے ہیں مگر کہیں نہیں پہنچتے۔شاید وہیں سے اس کے اندر اس احساس نے جنم لیا کہ ٹھہرنا مکمل نہیں۔
کالج کے دنوں میں حنا سے مل کر پہلی بار محبت نے اس کے دل پر دستک دی ۔وہ نرم لہجے میں بات کرنے والی لڑکی تھی۔جس کی آنکھوں میں اطمینان کی ایک ایسی گہرائی تھی،جو ارحم کے لئے اجنبی تھی۔
ارحم نے اس دستک پردل کے سارے دروازے کھل دئیے۔وہ اس سے محبت کرنے لگا۔ایسی محبت جس میں خواہش کم،تلاش زیادہ تھی۔لیکن ایک دن حنا نے اسے دیکھ کر کہا:
”تم بہت اچھے ہو ارحم،مگر تمہاری شخصیت میں ٹھہراو نہیں“
یہ جملہ اس کے دل پر کسی مہر کی طرح ثبت ہو گیا۔اس کے بعد ارحم نے خود کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔مگر شاید وہ جملہ ہی اس کے نصیب کا تعویز بن گیا۔
وقت نے رنگ بدلے،شہر بدلا مگر ارحم کے اندر کی بے چینی نہ بدلی۔
ایک روزبارش کے دن وہ ایک کیفے میں نیہا سے ملا۔ نیہا جو مسکراتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی۔جیسے بارش کے قطروں کے ساتھ کوئی خوشبو بھی اندرآگئی ہو۔
وہ میز کے پاس آکر بیٹھی اور بولی:
”بارش میں لوگ زیادہ سچے لگتے ہیں ناں۔۔۔ارحم۔“
ارحم چونکا۔۔۔
اس نے اسے اپنا نام کب بتایا تھا۔
مگر نیہا نے کہا:”میں تمہیں جانتی ہوں۔تم اکثر یہیں آتے ہو۔مگر کبھی بات نہیں کرتے۔“
پھر دونوں باتیں کرنے لگے۔بارش باہر گرتی رہی اور اندر الفاظ بہتے رہے۔
نیہا ہنستی تو ارحم کے دل میں خواہشوں کے پھول کھلنے لگتے۔وہ پہلی عورت تھی جس کے سامنے ارحم نے خود کو ”چھپانے“ کی کوشش نہیں کی۔
اس نے اپنے ماضی کی بات کی۔اپنی ماں کے خوابوں،باپ کی خاموشیوں،اور حنا کے انکار کی۔
نیہا نے سب خاموشی سے سنااور آخر میں کہا
ارحم دراصل تم کسی سے محبت نہیں کرتے بلکہ اس میں خود کو تلاش کرتے ہو۔اپنی شناخت کے سفر میں ہو تم ابھی تک اپنی منزل کا تعین نہیں کر پائے۔
یہ جملہ کسی آئینے کی طرح تھا۔۔ارحم نے خود کو پہلی بار صاف دیکھا اور ڈر گیا۔
کچھ دنوں تک ان کی ملاقاتیں رہیں۔
وہ فلمیں دیکھتے،بارش میں چہل قدمی کرتے،ایک دوسرے کی خاموشیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ایک دوسرے کو محسوس کرتے۔۔۔
مگر پھر ارحم کے اندر سے وہی بے نام سا خلا اُبھر آیا۔ایک دن اسی کیفے میں نیہا سے اعتراف کیا۔
”میں تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔مگر مجھے لگتا ہے،میں یہاں زیادہ دیر نہیں رہ پاوں گا۔“
نیہا مسکرائی مگر اس کی آنکھوں میں ایک گہری نمی اُتر آئی۔
”میں جانتی ہوں،ارحم تم ٹھہرنے کے لیے نہیں بنے۔“
اس نے اپنا کپ خالی کیا،اُٹھی اور بارش میں بھیگتی سڑک پر گم ہو گئی۔
ارحم نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی صرف اتنا سوچا کہ
بارش میں واقعی لوگ سچے لگتے ہیں۔مگر محبت۔۔۔
کبھی کبھی زندگی ایک بھول بھلیاں بن جاتی ہے۔جہاں ہر موڑ پر راستہ دیکھائی دیتا ہے۔مگر منزل غائب رہتی ہے۔
ارحم کے دن اب ایسے ہی گزر رہے تھے۔نیہا کے بعد اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اب کسی کو قریب نہیں آنے دے گا۔مگر خود سے کئے وعدے ہمیشہ کمزور لمحوں میں ٹوٹ جاتے ہیں۔
اس شام ارحم ایک آرٹ گیلری میں تھا۔گیلری کی سفید دیواروں پر رنگوں کا شور بپاء تھا۔ہر تصویر کسی چیخ،کسی یاد،کسی ادھوے لمس کی کہانی لگتی تھی۔
ارحم ایک پینٹنگ کے سامنے رُک گیا۔
نیلے اور سیاہ رنگ میں ایک عورت کا چہرہ،جس کے ہونٹ بند تھے۔مگر آنکھیں چیخ رہی تھیں۔
پیچھے سے ایک مترنم آواز اُبھری:
”یہ پینٹنگ میں نے بنائی ہے۔“
ارحم نے مڑ کر دیکھا۔ایک عورت تقریباً اسی کی عمر کی۔گہرے نیلے لباس میں،بال گردن سے زرا نیچے تک اور آنکھوں میں وہی سوال جو ارحم برسوں سے سنبھالے پھر رہا تھا۔
”تمہاری پینٹنگ میں دکھ ہے۔“ ارحم نے کہا
”دکھ ؟“ صبا نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ زیر لب کہا پھر اس کی جانب دیکھا اور کہا:
”نہیں۔۔۔یہ خاموشی ہے،دکھ تو شور مچاتا ہے۔“
یہ جملہ ارحم کے اندر کہیں دور تک اُتر گیا۔
وہ دیر تک پینٹنگ دیکھتا رہا۔۔۔
پھر جیسے بے اختیار بولا۔”کیا کبھی یہ خاموشی ختم ہوتی ہے؟“
صبا نے نظریں جھکا لیں ”نہیں بس ہم سیکھ جاتے کہ اس کے ساتھ جینا کیسے ہے۔“
اُس دن کے بعد وہ اکثر ملنے لگے۔کبھی گیلری میں،کبھی کسی کیفے میں اور کبھی کسی باغ کی بینچ پر۔صبا کے پاس کہانیاں تھیں،مگر وہ انہیں کبھی پورا نہیں سناتی تھی۔
اُس کی باتوں میں ادھورے جملے،رُکی ہوئی سانس اور چھپے ہوئے آنسو تھے۔
ایک دن ارحم نے صبا سے پوچھا،
”کیا تم شادی شدہ ہو؟“
صبا ہنسی۔۔۔ایک ایسی ہنسی جو دل کے خلا ء سے نکلتی ہے۔
”تھی۔“
”پھر؟“
”بس کہانی ختم ہو گئی۔کچھ کہانیاں اختتام کے بغیر بھی ختم ہو جاتی ہیں۔“
ارحم نے چپ رہنا بہتر سمجھا۔
وہ جانتا تھا کہ کچھ زخموں پر بات نہیں کرنی چاہیے ورنہ ان سے دوبارہ درد اور خون رسنے لگتا ہے۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود ارحم کو صبا کا ساتھ سکون دیتا تھا۔وہ پہلی عورت تھی جس نے اس سے کچھ مانگا نہیں۔
نہ محبت،نہ وعدہ،نہ لمس۔۔صرف خاموشی بانٹی اور یہی خاموشی ان دونوں کے درمیان ایک خاموش رشتہ بن گئی۔
وقت گزرتا گیا۔
ارحم کی زندگی میں پہلی بارکسی کی موجودگی نے اس کی تنہائی کو پر کیا تھا۔وہ اب کم سگریٹ پیتا،زیادہ ہنستا اور خود کو ہلکا محسوس کرتا۔
ایک شام جب وہ صبا کے ساتھ چھت پر بیٹھا ہو اتھا۔نیچے شہر کی روشنیاں چھوٹے جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی تھیں۔
صبا نے اچانک کہا:”ارحم تم جانتے ہو محبت کی سب سے بڑی سزا کیا ہے؟“
”کیا ہے؟“
”یہ کہ وہ ختم نہیں ہوتی،بس شکل بدل لیتی ہے۔“
ارحم نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا: وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظ اس کے اندر گم ہو گئے
صبا نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا،
”محبت اگر دائمی ہو تو وہ ایک دائرہ بن جاتی ہے۔۔۔بند۔۔مگر مکمل“
ارحم نے زیرِ لب کہا:
”اور میں۔۔شاید ہمیشہ اس دائرے کے کنارے پر رہتا ہوں۔“
ایک دن صبا نے اسے اپنے اسٹوڈیو بلایا۔
دیوار پر ایک نئی پینٹنگ تھی۔
ایک مرد اور عورت،دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے۔مگر ان کے بیچ ایک شیشےکی دیوار تھی۔عورت کی آنکھیں بند تھیں اور مرد کا چہرہ ادھورا۔
”یہ کون ہیں؟“ ارحم نے پوچھا۔
صبا نے کہا: ”یہ تم ہو، ارحم،اور میں۔“
ارحم کے قدم زمین میں دھنس گئے۔”تم مجھے کب سے جانتی ہو؟“
صبا نے نظریں چرایں۔”جب سے تم نے نیہا کو کھویا تھا“
ارحم کا دماغ گھوم گیا۔”کیا تم نیہا کو جانتی تھیں؟“
”ہاں وہ میری دوست تھی۔تمہاری کہانی میں وہ صرف ایک کردار نہیں تھی۔میری زندگی میں ایک مہربان سایہ تھی۔ اُس نے مجھے تمہارے بارے میں سب بتایا تھا“
کمرے میں سناٹا پھیل گیا۔ارحم نے دھیرے سے کہا۔
”تو تم۔۔۔مجھے جان کر سمجھ کر آئی تھیں۔
صبا نے دھیرے سے سر ہلا یا۔
”ہاں میں دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ مرد کیسا ہے؟جس سے نیہا آخری دنوں میں بھی نفرت نہیں کر سکی۔“
یہ جملہ ارحم کے لئے کسی خنجر سے کم نہ تھا۔اس نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
”تو یہ سب۔۔۔ ایک تجربہ تھا؟“
صبا نے کہا ”نہیں، ارحم۔شاید یہ محبت تھی۔مگر اپنی موت کے ساتھ۔“
ارحم خاموشی سے اسٹوڈیو سے نکل گیا۔باہر شام اُتر رہی تھی۔آسمان کے نیچے روشنی بجھ رہی تھی۔اور ارحم کے اندر ایک دائرہ مکمل ہو گیا تھا۔
اسے محسوس ہوا جیسے ہر رشتہ،ہر عورت ایک نیا دائرہ بناتی ہے۔جس کے مرکز میں تنہائی ہے اور کناروں پر محبت۔
وہ لمبی سڑک پر چلتا رہا اور سوچتا رہا۔۔
میں شاید زندگی بھر یہ دائرے بناتا رہوں گا اور ہر بار مرکز میں صرف میں رہ جاؤں گا۔
کئی برس بیت گئے۔زندگی نے ارحم کو وقت کی طرح بے حس بنا دیا تھا۔وہ اب وہ ارحم نہیں تھا جو ہر رشتے میں خود کو تلاش کرتا تھا۔اب وہ ایک ایسا شخص بن چکا تھا جو صرف دیکھتا تھا محسوس کرتا تھا مگر خود کو ظاہر نہیں کرتا تھا۔مگر ارحم کے اندر کے دائرے وہی تھے بس ان کے رنگ مدھم ہو گئے تھے۔
ایک شام جب سورج افق پر ڈوب رہا تھا۔اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا۔بارش کی نمی میں ایک یاد ہلکی سی مہک بن کر اُٹھی۔
صبا کی پینٹنگ،نیہا کی ہنسی اور وہ ادھوری بات جو کبھی پوری نہ ہو سکی۔اسے محسوس ہوا جیسے زندگی ایک بند کمرہ ہے جس کے چاروں اطراف آئینے ہیں۔اور ہر آئینہ اُس کے مختلف چہرے دیکھا رہا ہے۔
ایک روز وہ کسی انجان جذبے کے تحت وہ شہر چھوڑ کر نکل گیا۔بس ایسے ہی جیسے کسی نے اندر سے پکارا ہو۔بے سمت راستہ لمبا تھا۔۔گرد دھواں اور زرد سورج اس کے سامنے ایک بورڈ آیا۔
”کوہ سحر،10 کلو میڑ“
یہ وہ جگہ تھی جہاں برسوں پہلے ایک مزار کے پاس اس کی گاڑی خراب ہوئی تھی اور ایک اجنبی عورت نے اسے پانی دیا تھا۔اس کے قدم خود بخود اس سمت بڑھنے لگے۔پہاڑوں کی ڈھلوان پر وہ پرانا مزار اب بھی ویسا ہی تھا۔بس آس پاس کچھ نئی قبریں بڑھ گئی تھیں۔مزار کے قریب ایک خالی چبوترہ تھا۔وہ وہیں بیٹھ گیا۔
ہوا میں دھوپ۔مٹی اور پھولوں کی ملی جلی خوشبو تھی۔وہ بہت دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔پھر آہستہ سے بولا۔
”میں یہاں کیوں آ گیا؟ ”
پیچھے سے ایک مدھم سی ہنسی کی آواز آئی۔ارحم چونک کر مڑا۔
ایک لڑکی کھڑی تھی۔گہرے سبز لباس میں،بال کھلے ہوئے،اور آنکھوں میں ایک اجنبی اطمینان۔۔۔
”پانی پیو گے؟“اس نے پوچھا۔
ارحم حیران نہ ہوا اور بے ساختہ پوچھا۔
”کیا تم یہاں رہتی ہو؟“
”نہیں بس آتی جاتی رہتی ہوں“
”نام کیا ہے تمہارا؟“
”زویہ۔“
زویہ۔۔۔یہ نام جیسے کسی بھولی ہو ئی دعاسے اُبھرا ہو۔
وہ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔زویہ کے لہجے میں نرمی تھی۔جیسے ہر بات کے پیچھے ایک سکون چھپا ہو۔وہ زمین کی باتیں کرتی تھی۔وہ آسمان کی باتیں کرتی تھی۔اور اس کی ہر بات میں زندگی کی خوشبو تھی۔
ارحم نے بہت دنوں بعد محسوس کیا کہ جیسے اس کے اندر کوئی چیز نرم پڑ رہی ہے۔جیسے برف پگھلنے لگے۔جیسے کسی طویل دائرے کا مرکز مل گیا ہو۔
زویہ اس کے ساتھ مزار کے احاطے میں ٹہلتی رہی۔شام گہری ہو چکی تھی۔رویہ نے کہا۔
”تم بہت بھٹکے ہوئے لگتے ہو،ارحم۔“
”ہاں شاید زندگی بھر“
”پھر بھی تم لوٹ آئے۔“
”شاید خود کو ڈھونڈنے۔“
زویہ نے مسکرا کر کہا۔”خود کو ڈھونڈنے والے اکثر دوسروں میں گم ہو جاتے ہیں۔اور جب خود کو پا لیتے ہیں تو کوئی دوسرا انہیں کھو دیتا ہے۔“
یہ جملہ ارحم کے دل پرجیسے نقش ہو گیا۔اس نے زویہ کی طرف دیکھا۔
”تم یہ سب کیسے جانتی ہو؟“
زویہ نے کہا ”میں بھی کبھی کسی کی تلاش میں نکلی تھی۔“
دن گزرتے گئے۔
زویہ اب ارحم کی زندگی میں ایک روشنی بن گئی تھی۔وہ ایک ساتھ چائے پیتے،مزار کی سڑھیوں پر بیٹھ کر باتیں کرتے۔اور زندگی کی تلخیوں پر ہنستے۔
ارحم کو لگا کہ آخر کار وہ مل گیا جس کے لیے دل بے قرار تھا۔ایک دن اس نے کہا۔
”زویہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ رہو ہمیشہ کے لئے۔۔۔
زویہ نے ہولے سے اس کا ہاتھ تھاما،
”ارحم، تم نے کبھی محسوس کیاہے کہ کچھ لوگ ٹھہرتے نہیں۔وہ بس گزرنے کے لیے آتے ہیں۔کسی کو مکمل کرنے کے لئے،اور پھر چلے جاتے ہیں۔“
”لیکن کیوں؟“ ارحم نے پوچھا۔
زویہ نے آنکھیں بند کیں ”کیونکہ ہم خانہ بدوش ہیں۔محبت کے نہیں روح کے۔ہم کسی ایک دل کے نہیں ہوتے،ہم سب کے درمیان پھرتے ہیں تاکہ کسی ایک کے اندر محبت جاگ جائے۔“
ارحم خاموش ہو گیا۔اس کے دل میں جیسے کسی نے چراغ جلا دیا ہو۔
زویہ نے دھیرے سے کہا۔”دائرہ اب مکمل ہو چکا ہے۔ارحم۔“
اس کے بعد زویہ وہاں نہیں تھی۔
وہ لمحے، وہ خوشبو،وہ آواز ۔۔۔ سب ہوا میں تحلیل ہو گئے تھے
صرف ارحم رہ گیا تھا۔مزار کی سڑھیوں پر بیٹھا۔اور اس کے لبوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ تھی۔
اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ بادلوں کے بیچ روشنی کا ایک دائرہ بن رہا تھا۔شاید غروب آفتاب کا عکس یا کسی دعا کا جواب۔
ارحم نے آنکھیں بند کر لیں اور کہا
”شاید محبت کبھی ختم نہیں ہوتی،بس ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں بدل جاتی ہے“
ہوا نے اس کے گرد چکر کاٹا نرم،خاموش،مقدس۔اور ارحم کے لبوں پر ایک شکر گزار خاموشی اُتر آئی.

Author

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Related Articles

Back to top button
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x