عقیل عباس کی مائکروفکشن نگاری کی چند خصوصیات / رحمان حفیظ

(دلہن اور دوسرے مائیکروفکشن کے تناظر میں ) عقیل عباس کی مائکروفکشن نگاری کی چند خصوصیات / رحمان حفیظ
عقیل عباس اگرچہ نوعمر ہے لیکن اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی تصنیف ” دلہن اور دوسرے مائیکروفکشن” پاکستان میں اپنی نوعیت کی نئی کتاب ہے جس کا سن اشاعت 2016 ہے یعنی جب اردو میں مائکرو فکشن کے تعار ف کا دائرہ وسیع ہونا شروع ہوا ۔ ایسے وقت میں عقیل عباس نے نہایت نئے اور جدید موضوعات پر یہ مختصر تحریریں لکھ کر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔مائکروفکشن، جسے بعض اوقات فلیش فکشن یا کئی دوسرے ناموں سے بھی پکاراجاتا ہے، ایسی کہانیاں ہوتی ہیں جو چند جملوں یا چند سو الفاظ میں مکمل کہانی بیان کرتی ہیں۔
مائکروفکشن اپنی مختصر شکل، گہرے اور قابل غور پیغامات، اور کم الفاظ میں زیادہ اثر اندازی کی خصوصیت کی وجہ سے منفرد ہوتاہے۔عقیل عباس کی یہ کتاب اس صنف کی ایک عمدہ مثال ہے، جہاں ہر کہانی مختصر ہونے کے باوجود جذبات، سماجی مسائل، اور فلسفیانہ سوالات کو چھوتی ہے۔ یہ بہت ہی مختصر کہانیاں شامل ہیں جن کی کل ضخامت ایک چوتھائی سے نصف صفحے کے مابین کہی جا سکتی ہے۔ ان کہانیوں کے موضوعات، اسلوب، کردار اور ادبی اہمیت پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے تاہم کچھ اختصار کے ساتھ عرض کیا جائے تو عقیل عباس کی مائکروفکشن کہانیوں میں چند انسانی احساسات زیادہ نمایاں ہیں مثلا جذباتیت یا تنہائی زدگی ۔ ” دلہن” ایک بڑے موضوع پر لکھی گئی کہانی ہے جس میں عورت کا غرور اپنی انتہا پر ہے ۔ بعض کہانیوں میں کردار سماجی دباؤ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔” دی مشینز” میں مشینوں کی جذبات کی بات کی گئی ہے ۔ یہی کیفیت” این ایچ ای ڈی زیرو ون” میں ہے۔ لیکن "خلش” میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی جذبات کی تسکین نہیں کر سکتی ۔ ایک کہانی میں وقت کو ایک انجان لکھاری قرار دیا گیا ہے ۔” بے بصر” میں جدید دور کے بے رحمانہ اور جینیٹک تجربات کے ہولناک نتائج کی جانب اشارہ ہے ۔ "ادھیڑ بن” میں ایک ٹیلی پیتھی کا ماہر شاعر کے دماغ میں اتر کر بے بس ہو جاتا ہے ( لیکن یہ سمجھ نہیں آیا کہ اس کا عنوان پھر ” ادھیڑ بن” کیوں رکھا گیا ) ان موضوعات کو دیکھا جائے تو خاصے جدید ہیں اور زیادہ تر سائنس فکشن کے متعلقہ ہیں۔ ایسے موضوعات ت پر لکھنے کے دوران تو ارد کا خطر ہ بھی رہتا ہے
بعض الفاظ کا تکرار کے ساتھ استعمال ا کرداروں کے ذہنی دباؤ یا ایک ہی خیال کے گرد گھومتی سوچ کو ظاہر کرتا ہے یعنی کردار کی اندرونی کشمکش کو اجاگر کرتا ہے۔ چند کہانیاں معاشرتی مسائل جیسے طبقاتی تقسیم، صنفی کردار، یا ثقافتی دباؤ کو بھی چھوتی ہیں۔ کہیں کہیں عورتوں یا دیگر پسماندہ گروپوں کے مسائل اور ان کی جدوجہد کی عکاسی بھی ہے بعض کہانیاں زندگی، موت، اور وجود سے متعلق فلسفیانہ سوالات اٹھاتی ہیں کہیں لامحدودیت کا اشارہ زندگی کی ابدیت یا لا متناہی امکانات کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو قاری کو گہرے فلسفیانہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ زندگی کے مختلف مراحل کے ذریعے وقت کا تسلسل واضح کیا گیا ہے اور اکثر جگہوں پر علامات کا استعمال کیا گیا ہے۔ اسلوب اور ادبی تکنیک کی بات کی جائے تو عقیل عباس کا اسلوب مائکروفکشن کی ضروریات کے مطابق ہے اور معنی خیز ہے یعنی علامتیت قاری کو خود سے معنی اخذ کرنے کی آزادی بھی دیتی ہے اور اس کی کہانیوں میں زیادہ تر کردار ہوتے بھی علامتی یا گمنام ہیں جو قاری کی گھمبیرتا میں اضافہ کرتے ہیں البتہ اس سے فکشن میں دلچسپی پید اہوتی ہے اور معنی کی تکثیریت کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے
عقیل زبان کے معاملے میں کافی کشادہ دلانہ اپروچ رکھتا ہے۔ اس کی تحریر میں کئی زبانوں کے استعمال شامل ہو جاتے ہیں۔ مثلا "پیر صاحب "میں ایک پنجابی لفظ "جھٹ” کو "کچھ دیر” کے معنوں میں استعمال کیا گیاہے ۔اس کا جواز سمجھ میں نہیں آیا۔”سپارٹکس” میں ” میرا ذہن ہے” کو "میرا خیال ہے” کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جو کہ عام نہیں ۔ "مکاشفت” میں ہندی لفظ ” سہائتا” کا استعمال ہوا ہے جب کہ کردار بظاہر ہندی نہیں لگ رہے۔ یہ رویہ زبان کے معاملے میں مصنف کی نرم ترجیحات کو ظاہر کرتا ہے
عقیل عباس کی یہ مائکروفکشن کتاب متنوع خوبیوں کی بنا پر اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہے کیونکہ یہ صنف اردو میں آج بھی نسبتاً نئی ہی شمار کی جاتی ہے۔ اس کی کہانیاں نہ صرف مقامی مسائل کو چھوتی ہیں بلکہ عالمگیر موضوعات کو بھی بیان کرتی ہیں۔کچھ قارئین کے لیے عقیل کا غیر روایتی ڈھانچہ کہانیوں کو سمجھنے میں مشکل بھی پیدا کر سکتا ہے جیسے ” قوسین” اور ” مضمحل” ، ” پاگل سائنسدان” ، "وہ کون تھا ” جیسی کہانیاں ہر قاری کے لیے نہیں ہیں، کیونکہ انہیں سمجھنے کے لئے توجہ اور گہری سوچ کی ضرورت ہوتی ہےتاہم یہی چیز ان کہانیوں کو منفرد بھی بناتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ عقیل عباس نے مختصر کہانیوں میں جو اثر پیدا کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے یہ ایک ایسی ادبی کاوش ہے جو روایتی بیانیہ سے ہٹ کر قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کی کہانیاں انسانی جذبات، سماجی مسائل، اور فلسفیانہ سوالات کو علامتی اور غیر روایتی انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اس کا مخصوص اسلوب بیان ،لسانی رویہ ، اور علامات کا ماہرانہ استعمال اردو مائکروفکشن کو ایک نئی جہت دیتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف پاکستانی شائقین کے لیے بلکہ اردو کے عالمی قارئین کے لیے بھی ایک اہم پیشکش ہے۔




